عظمت صحابہ |
ہم نوٹ : |
|
کے لیے غشی سی آگئی اور گھر واپس ہوکر آپ نے فرمایا زَمِّلُوْنِیْ زَمِّلُوْنِیْ 11؎ اے خدیجہ مجھے کمبل اوڑھا دو۔ آپ پر یہ کیفیت کیوں طاری ہوئی ؟ کیا نعوذباللہ! حضرت جبرئیل علیہ السلام کی طاقت زیادہ تھی؟ جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولِ پاک صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو معراج میں وہ مقام عطا فرمایا کہ جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا کہ اے اللہ کے نبی! اب میں آگے نہیں بڑھ سکتا، اب اگر میں آگے بڑھا تو میرے پَر جل جائیں گے، یہ آپ کا مقام ہے، آپ آگے جائیے۔ تو مولانا گنگوہی نے اس کا ایسا پیارا جواب دیا کہ آپ بھی مست ہوجائیں گے ان شاء اللہ، فرمایا کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم جبرئیل علیہ السلام کی ہیبت سے بے ہوش نہیں ہوئے تھے بلکہ آپ کو عرب کے کافروں کے آئینے میں اپنا حسنِ نبوت نظر نہیں آیا کیوں کہ وہ تاریک آئینے تھے لیکن جب جبرئیل علیہ السلام کا روشن آئینہ نظر آیا اور آپ پر اپنا مقام ِ نبوت، حسنِ نبوت، جمالِ نبوت منکشف ہوا تو اپنے ہی جمالِ حسن سے آپ بے ہوش ہوگئے ؎ غش کھا کے گر گئے تھے وہ آئینہ دیکھ کر خود اپنے حسن ہی سے وہ بے ہوش ہوگئے ایک شیر بکریوں میں رہتے ہوئے سمجھتا تھا کہ میں بھی بکری ہوں ۔ ایک دن دریا میں اپنی شکل دیکھی تب اس نے کہا لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ میں تو کچھ اور ہوں لہٰذا ایسی دھاڑ ماری کہ ساری بکریاں ڈر کر بھاگ گئیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے آئینۂ جبرئیل میں مقامِ نبوت کو منکشف فرمایا، اپنے ہی جمالِ نبوت سے آپ پر غشی طاری ہوگئی ؎ غش کھا کے گرِ گئے تھے وہ آئینہ دیکھ کر خود اپنے حسن ہی سے وہ بے ہوش ہوگئے کیا تعبیر کی ہے ذرا سوچئے اس کو۔ اُولٰئِکَ اٰبَائِیْ فَجِئْنِیْ بِمِثْلِہِمْ کیسی محبت کی تعبیر کی ہے اور مقامِ نبوت کو کس طرح بیان کیا ہے! صحابہ کا مقامِ عشق تو دوستو! یہ عرض کررہا تھا کہ اپنے شیخ و مربی کی محبت صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ _____________________________________________ 11؎صحیح البخاری:3/1،(3)باب کیف کان بدء الوحی الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم ،المکتبۃ المظہریۃ