عظمت صحابہ |
ہم نوٹ : |
|
کو بیعت فرما لیں۔ مولانا گنگوہی سمجھے کہ مولوی ماجد علی نے انہیں وکیل بنایا ہے، انہوں نے اپنا ہاتھ بڑھا دیا، اب اتنا بڑا شیخ، قطب العالم، محدثِ عظیم اپنے شاگرد کی طرف ہاتھ بڑھائے تو وہ شاگرد کتنا نالائق ہوگا جو ہاتھ کھینچ کر کہہ دے کہ میں بیعت نہیں ہونا چاہتا لہٰذا انہوں نے بھی فوراً ہاتھ بڑھایا اور بیعت ہوگئے۔ میرے مرشدِ اوّل شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ساری زندگی مولانا ماجد علی جونپوری مولانا یحییٰ صاحب کو شکریہ کا خط لکھتے رہے کہ مولانا یحییٰ! تمہارا مجھ پر اتنا بڑا احسان ہے جس کا بدلہ خدا ہی قیامت کے دن تمہیں عطا فرمائے گا کہ مجھ جیسے نالائق کو تم نے مولانا گنگوہی کے ہاتھ پر بیعت کراکے اتنے بڑے قطب العالم کے سلسلے میں داخل کردیا، اگر تم مجھ پر یہ مہربانی نہ کرتے تو میں محروم رہ جاتا۔ چھینک آنے پر الحمد ﷲ کہنے کی حکمت میرے شیخ نے فرمایا کہ ایک مرتبہ مولانا گنگوہی نے طلباء سے دریافت فرمایا کہ جب چھینک آتی ہے تو شریعت نے الحمد للہ کہنے کا حکم کیوں دیا؟ طلباء نے کہا حضرت ! محدثینِ کرام نے لکھا ہے کہ بخاراتِ ردِّیہ جو دماغ میں ہوتے ہیں چھینک آنے سے نکل جاتے ہیں، خروجِ بخاراتِ ردِّیہ سے دماغ کو آرام ملتا ہے اس لیے الحمد ﷲ کہہ کر اﷲ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ حضرت گنگوہی نے فرمایا کہ ایک جواب اللہ تعالیٰ نے میرے دل کو یہ عطا فرمایا کہ چھینکتے وقت انسان کی شکل بگڑ جاتی ہے اور ایسی بگڑتی ہے کہ اگر خدا چھینک کو وہیں روک دے اور پچھلی شکل پر اس کو واپس نہ لائے تو اسے کوئی نہیں پہچان سکتا،یہاں تک کہ بیوی بھی گھر میں نہیں گھسنے دے گی کہ یہ کون جانور آرہا ہے۔ تو چھینکنے کے بعد الحمد ﷲ کہنا اسی بات کا شکریہ ہے کہ یااللہ! میری شکل جو بگڑگئی تھی آپ نے دوبارہ اسے درست فرما دیا۔ اُولٰئِکَ اٰبَاءِیْ فَجِئْنِیْ بِمِثْلِھِمْ یہ ہیں ہمارے باپ داداؤں کے علوم! حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی غشی کی وجد آفریں توجیہ مولانا گنگوہی نے فرمایا کہ جب حضور صلی اﷲ علیہ وسلم پر اِقۡرَاۡ بِاسۡمِ رَبِّکَ نازل ہوئی اور جبرئیل علیہ السلام نے آپ سے معانقہ کیا تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو تھوڑی دیر