عظمت صحابہ |
ہم نوٹ : |
|
سے فرمایا کہ مولوی اشرف علی! تم میرے خاص ہو اس لیے بتاتا ہوں کہ جب فضلِ رحمٰن سجدے میں سر رکھتا ہے تو اتنا مزہ آتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے میرا پیار لے لیا ہو اور فرمایا کہ ان شاء اللہ تعالیٰ جب میں جنت میں جاؤں گا تو وہاں بھی تلاوت کرتا رہوں گا، جب حوریں آئیں گی اور کہیں گی کہ میاں ذرا ہماری طرف بھی توجہ کرو تو ان سے کہوں گا کہ بیبیو! اگر اللہ تعالیٰ کا کلام سننا ہے تو تشریف رکھو ورنہ اپنا راستہ لو۔ اور ہم لوگوں کے دل میں کیا ہے وہ بھی سنائے دیتا ہوں کہ خدا کے عاشقوں کا تو یہ مقام ہے جبکہ ہمارے یہ جذبات ہیں ؎ دنیا سے مر کے جب تم جنت کی طرف جانا اے عاشقانِ صورت حوروں سے لپٹ جانا حدیث کَلِّمِیْنِیْ یَا حُمَیْرَاءُ کی تشریح از مولانا گنگوہی تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز ہے، اسی وجہ سے تہجد میں آپ اتنا طویل قیام فرماتے تھے کہ پاؤں میں سوجن آجاتی تھی، ایک رکعت میں کئی کئی پارے پڑھتے تھے، اسی وجہ سے آپ کی روحِ مبارک تہجد کے وقت اس اونچے مقام پر پہنچتی تھی کہ عرشِ اعظم کا طواف کرتی تھی اور جب فجر کا وقت قریب ہوتا تو آپ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرماتے تھے کَلِّمِیْنِیْ یَاحُمَیْرَاء 9؎ اے حمیرا! مجھ سے باتیں کرو۔ مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ آپ کی یہ گفتگو بی بی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ایسی نہیں تھی جیسی ہم لوگ اپنی بیویوں سے بہ تقاضائے بشریت کرتے ہیں بلکہ بہ تقاضائے عظمتِ الوہیت عرشِ اعظم کا طواف کرتی ہوئی اپنی روحِ مبارک کو آپ مسجدِ نبوی کے مصلیٰ پر اتارنے کے لیے یہ گفتگو فرماتے تھے تاکہ فجر کی اِمامت کا حق ادا ہوسکے ورنہ اگر روحِ مبارک عرشِ اعظم کا طواف کرتی رہتی تو آپ فجر کی نماز پڑھانے پر قادر نہ ہوتے ؎ نمودِ جلوۂ بے رنگ سے ہوش اس قدر گم ہیں کہ پہچانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی _____________________________________________ 9؎غرائب القراٰن:402/2،دارالکتب العلمیۃ، بیروت