نسبت مع اللہ کے آثار |
ہم نوٹ : |
|
اے حسام الدیں ضیائے ذوالجلال میل می جوشد مرا سوئے مقال پیر اپنے مرید کی تعریف کررہا ہے کہ اے حسام الدین! تم اللہ کی روشنی ہو، مثنوی کے لیے مجھے جوش آرہاہے، کاغذ قلم لاؤ اورمثنوی لکھو۔ تو پیر اپنے مرید کی تعریف کررہا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ حدیثِ پاک میں تو منہ پر تعریف کرنے کی ممانعت آئی ہے، اس کو اچھی طرح سمجھ لو کہ ہر تعریف قابلِ ممانعت نہیں ہوتی، حدیثِ پاک ہے: اِذَا مُدِحَ الْمُؤْمِنُ فِیْ وَجْھِہٖ رَبَا الْاِیْمَانُ فِیْ قَلْبِہٖ 10 ؎جب مومن کامل کے منہ پر اس کی تعریف ہوتی ہے تو اس کا ایمان اور بڑھ جاتاہے کہ یہ ہماری نہیں اللہ تعالیٰ کی تعریف ہے، اگر کوئی مٹی کے برتن کی تعریف کررہا ہے تو حقیقت میں یہ اُس کی تعریف ہے جس نے اِسے بنایاہے۔ تو مولانا رومی فرماتے ہیں ؎ مدح توحیف است در زندانیاں گویم اندر مجمع روحانیاں یہ زندانی لوگ،یہ تیرے پیر بھائی جو نفس کے قیدی ہیں، جن کی ابھی اِصلاح نہیں ہوئی،یہ حسد میں گرفتار ہیں، جب میں تیری تعریف کرتا ہوں تو یہ حسد سے جل کر خاک ہوجاتے ہیں ان کے چہرے سیاہ ہو جاتے ہیں،یہ کہتے ہیں کہ پیر صاحب کو کیا ہوگیا کہ یہ حسام الدین کو بہت زیادہ مانتے ہیں۔ حسد کے بیمار تیرے پیر بھائیوں کو افسوس ہوتاہے کہ میں تیری تعریف کیوں کرتا ہوں؟ اب میں روحانیوں کی مجلس تلاش کروں گا اور ان کے سامنے تیری تعریف کروں گا۔ ایران کے لوگ اﷲ والے صوفیا کو روحانی کہتے تھے،یہ سینکڑوں سال پرانی اِصطلاح ہے۔تو مولانا رومی فرماتے ہیں کہ میں مجمعِ روحانیاں تلاش کروں گا اور وہاں تیری تعریف کروں گا ؎ _____________________________________________ 10؎المعجم الکبیر للطبرانی:117/1 (424) ،مرویات اسامۃ ابن زید بن حارثۃ،مکتبۃ ابن تیمیۃ/کنز العمال:144/1(701)،فصل فی صفات المؤمنین،مؤسسۃ الرسالۃ