عظمت رسالت صلی اللہ علیہ و سلم |
ہم نوٹ : |
|
اللہ تعالیٰ سے جُدا بھی نہیں۔ حضرت عارف رومی رحمۃاللہ علیہ نے اپنے شعر میں اس مثال سے بہت باریک اور نازک مسئلہ قرآن کے غیر مخلوق ہونے کا حل فرمادیا۔ قرآن نازل ہونے سے پہلے حق تعالیٰ شانہٗ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات چالیس برس تک اہل عرب کو دکھائی کہ یہ میرا رسول ہے۔ اے اہل عرب! تم لوگ ظہور نبوت سے پہلے میرے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا بچپن دیکھو کہ ایسا بچہ روئے زمین پر کبھی نہیں پیدا ہوا، اور اے اہلِ عرب! میرے رسول کی جوانی بھی دیکھ لو کہ ایسا جوان روئے زمین پر نہ پیدا ہوا ہے نہ پیدا ہوگا۔ ہمارے رسول کو ایک دو دن دیکھ کر فیصلہ مت کرو، چالیس برس تک ہم تم کو اپنا رسول دکھائیں گے، یہاں تک کہ میرے رسول کی صداقت اور امانت کا مکہ کی ہر ہر گلی میں، ہر ہر گھر میں چرچا ہونے لگے کہ ھٰذَا صَدُوْقٌ اَمِیْنٌ ۔ یہ شخص یعنی محمدصلی اللہ علیہ وسلم بڑے سچے اور امین ہیں فَعُوْلٌ اور فَعِیْلٌ دونوں صیغے مبالغہ کے لیے آتے ہیں یعنی بہت بڑے سچے اور بہت بڑے امانت دار، آپ سے بڑھ کر کون سچا ہوسکتا ہے؟مگر اس سے اور نبیوں کی صداقت اور امانت کی تنقیص مراد نہیں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ آپ کی صداقت کے افراد کا حلقہ اتنا وسیع ہے کہ اس کا احاطہ نہیں ہوسکتا کیوں کہ آپ قیامت تک تما م عالم کے انسانوں اور جِنّوں کے لیے رسول ہیں اور پچھلے انبیاء علیہم السلام کا حلقہ محدود تھا۔ اے عرب کے بچوں! تم بھی میرے رسول کو دیکھو تاکہ کل جب تم ادھیڑ عمر میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ظہور ِنبوت دیکھو تو جھٹلا نہ سکو۔ اور اے عرب کے جوانو! تم بھی میرے رسول کو دیکھو تاکہ کل جب بوڑھے ہوکر اعلانِ نبوت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے سنو تو انکار کی تمہیں کوئی گنجایش نہ رہے۔ اے عرب کے بچوں، جوانو اور بوڑھو! تم لوگوں نے چالیس برس تک میرے رسول کی صداقت اور امانت کو دیکھا، کہیں تم کو حرف رکھنے کی گنجایش بھی نہ ملی بلکہ تمہارے ہر فرد کی زبان سے میں نے اپنے رسول کے اخلاقِ حسنہ کو دکھلاکر یہ کہلوالیا کہ ھٰذَا صَدُوْقٌ اَمِیْنٌ احمد صلی اللہ علیہ وسلم تو بڑے سچے اور بڑے امانت دار ہیں۔