عظمت رسالت صلی اللہ علیہ و سلم |
ہم نوٹ : |
|
ستارۂ ہدایت ہے اور اس سے اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتادیا کہ صحبت میں اللہ تعالیٰ نے کیمیا کا اثر رکھا ہے۔ جس طرح کیمیا تانبے کو سونا بنادیتا ہے اسی طرح صحبت کفر و فسق سے مُردہ دلوں کو حیاتِ ایمانی سے مُشرف کرتی ہے اور دوسری آیت میں کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ 23؎ نازل فرماکر مزید صراحت فرمادی کہ اہلِ صدق،اہلِ تقویٰ کی صحبت و معیت کے بغیر تم صاحبِ تقویٰ اور صاحبِ ولایت نہیں ہوسکتے کیوں کہ تقویٰ ہی ولایت کی بنیاد ہے۔ کَمَا قَالَ تَعَالٰی اِنۡ اَوۡلِیَآؤُہٗۤ اِلَّا الۡمُتَّقُوۡنَ 24 ؎ کہ اللہ کا کوئی ولی نہیں سوائے اُن کے جو متقی ہیں۔ اور صادقین اور متقین کلی متساوی ہیں جس کی دلیل قرآنِ پاک کی آیت اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ صَدَقُوۡا ؕ وَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُتَّقُوۡنَ 25؎ ہے۔معلوم ہوا کہ جو صادق ہے وہ متقی ہے اور جو متقی ہے وہ صادق ہے۔ عظمتِ رسالت کا منکر جہنمی ہے مذکورہ بالا آیات و احادیث سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو کیا شان دی ہے۔ علمائے اُمت کا اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا درجہ ہے لہٰذا جو اللہ تعالیٰ کے نام پر قُربان ہو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نہ قربان ہو پھر اُس کی کیا قربانی ہے۔ کوئی اللہ پر قربان ہے، شہادت کے لیے تیار ہے لیکن رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اُس کے دل میں نہیں ہے تو جہنم میں جائے گا۔ اس لیے عظمتِ رسالت بھی ایمان کے لیے لازمی ہے۔ (مولانامنصورالحق صاحب نے عرض کیا کہ حضرت آپ نے بہت قیمتی بات فرمائی۔جامع) بعض لوگ شہید ہونے کے لیے تیار ہیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور محبت میں کمی ہے جس کی دلیل ہے کہ سُنّت کی اتباع نہیں کرتے، گناہوں سے نہیں بچتے تویہ دلیل ہے کہ اُن کے دل میں اللہ کی عظمت میں بھی کمی ہے۔ عظمتِ رسول عظمت اللہ کی دلیل ہے، جس کے دل میں اللہ کی جس قدر عظمت ہوگی اُسی قدر اُس کے دل میں رسول کی _____________________________________________ 23؎التوبۃ:119 24؎الانفال:34 25؎البقرۃ: 177