عظمت رسالت صلی اللہ علیہ و سلم |
ہم نوٹ : |
|
وہیں تم کو بھی رہنا ہوگا۔ لہٰذا تمام صحابہ کو حکم ہوگیا کہ میرے نبی کے ساتھ مدینہ میں رہو، ایک صحابی بھی میرے رسول کو چھوڑ کر نہ جائے۔ بتائیے اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیسی عظمت ثابت ہوتی ہے۔ اللہ نے اپنے رسول کو اکیلا نہیں چھوڑا۔ سب صحابہ کو حکم ہوا کہ جاؤ تم سب میرے نبی کے ساتھ رہو۔ اللہ تم کو رسول اللہ سے ملے گا اور صحابہ نے پوری زندگی وہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گزاری۔ کیا وفاداری تھی! ستّر صحابہ دامن اُحد میں ایک وقت میں شہید ہوگئے گویا وہ ستّر شہید بزبانِ حال کہہ رہے تھے ؎ اُن کے کوچے سے لے چل جنازہ مرا جان دی میں نے جن کی خوشی کے لیے بے خودی چاہیے بندگی کے لیے بس سمجھ لیجیے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اگر کسی کے قلب سے نکل جائے تو اُسی وقت وہ کافر ہوجائے گا۔ یہ مقام ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا۔ اور جب ہجرت کا حکم ہوا تو تمام صحابہ کو حکم ہوا۔ جو قوی صحابی تھے اُن کو بھی رہنے کی اجازت نہیں ملی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کتنے قوی تھے۔سب تو چُھپ کے نکل گئے لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تلوار کو فضاؤں میں لہراکر اعلان کیا کہ عمر ہجرت کررہا ہے اور اللہ کے حکم سے کررہا ہے، کسی سے ڈر کے نہیں کررہا ہے، جس کو اپنی بیوی کو بیوہ کرنا ہو، اپنے بچوں کو یتیم کرنا ہو وہ آکر میرا مقابلہ کرے لیکن اُن کو بھی اجازت نہیں ملی کہ وہ مکہ شریف میں رہ جائیں اور رسول اللہ کے ساتھ نہ رہیں۔معلوم ہوا کہ رسول اللہ کی صحبت سے اللہ ملے گا۔ اس سے صحبت کی اہمیت ظاہر ہے۔ ہجرت کا حکم اور وطنیت کا بُت اور دوسری بات یہ ہے کہ ہجرت کے حکم سے وطن کا بُت بھی گر گیا ورنہ اپنا وطن انسان کو کتنا عزیز ہوتا ہے مگر اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ وطنیت کا بُت بھی دلوں سے نکل جائے۔ اسلام میں وطن کوئی چیز نہیں۔ جس زمین پر اللہ راضی ہو، جس زمین پر اللہ مل جائے وہی