عظمت رسالت صلی اللہ علیہ و سلم |
ہم نوٹ : |
لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفۡسَکَ اَلَّا یَکُوۡنُوۡا مُؤۡمِنِیۡنَ 40 ؎جب دشمنوں پر آپ کی رحمت کی یہ شان ہے تو اہل محبت یعنی مومنین کے ساتھ آپ کی رحمت و شفقت کا کیا عالم ہوگا! اسی کو حق تعالیٰ نے اگلی آیت میں بیان فرمادیا جو تَخْصِیْصٌ بَعْدَ التَّعْمِیْمِ ہے یعنی حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ میں تو عموم ہے کہ اس میں مؤمنین و کفار دونوں شامل ہیں لیکن آگے مومنین کو خاص فرمارہے ہیں کہ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ مومنین کے ساتھ آپ رؤف و رحیم ہیں یعنی بڑے ہی شفیق اور مہربان ہیں۔ رأفت کے معنیٰ ہیں دفع مَضَرَّت اور رحمت کے معنیٰ ہیں جَلْبِ منفعت، تو یہ معنیٰ ہوئے کہ جو باتیں اہل ایمان کے لیے مضر ہیں اُن کو دفع کرتے ہیں اور جو باتیں مؤمنین کے لیےنفع بخش ہیں وہ عطا کرتے ہیں اور ایک دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے مومنین پر آپ کی شانِ رحمت کی یوں شہادت دی ہے کہ: اَلنَّبِیُّ اَوۡلٰی بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ مِنۡ اَنۡفُسِہِمۡ 41؎یعنی اے ایمان والو! جتنی محبت تمہیں اپنی جانوں کے ساتھ ہے ہمارے نبی کو اس سے زیادہ محبت تمہاری جانوں سے ہے۔ پس جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہماری جانوں کے ساتھ ایسا تعلق ہے جو خود ہمیں اپنی جانوں سے نہیں تو ہم پر آپ کا حق اپنی جان سے زیادہ ہےیعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہم پر حق ہے کہ ہم اپنی جان سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کریں اور اس محبت کا ثبوت یہ ہے کہ ہر کام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کریں ؎ فَاِنَّ الْمُحِبَّ لِمَن یُّحِبُّ مُطِیْعُ 42؎کیوں کہ عاشق جس سے محبت کرتا ہے اُس کا فرماں بردار ہوتاہے۔ لہٰذا اُس نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم پر اگر ہم اپنی کروڑوں جانیں قربان کردیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا حق ادا نہیں ہوسکتا ؎ _____________________________________________ 40؎الشعرآء:3 41 ؎الاحزاب:6 42؎روح المعانی:3/ 138اٰل عمرٰن(31)،داراحیاءالتراث، بیروت