عظمت رسالت صلی اللہ علیہ و سلم |
ہم نوٹ : |
|
مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃاللہ علیہ اپنی تفسیر معارف القرآن میں اس آیت کی تفسیر کے ذیل میں لکھتے ہیں کہ اصل مقصود آیت کا مسلمانوں کو یہ حکم دینا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوٰۃ و سلام بھیجا کریں مگر اس کی تعبیر و بیان میں اس طرح فرمایا کہ پہلے حق تعالیٰ نے خود اپنا او راپنے فرشتوں کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے عمل صلوٰۃ کا ذکر فرمایا، اس کے بعد عام مؤمنین کو اس کاحکم دیا جس میں آپ کے شرف اور عظمت کو اتنا بلند فرمادیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں جس کام کا حکم مسلمانوں کو دیا جاتا ہےوہ کام ایسا ہے کہ خود حق تعالیٰ اور اُس کے فرشتے بھی وہ کام کرتے ہیں تو عام مؤمنین جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات بے شمار ہیں اُن کو تو اس عمل کا بڑا اہتمام کرنا چاہیے، اور ایک فائدہ اس تعبیر میں یہ بھی ہے کہ اس سے درود و سلام بھیجنے والے مسلمانوں کی ایک بڑی فضیلت یہ ثابت ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس کام میں شریک فرمالیا جو کام حق تعالیٰ خود بھی کرتے ہیں اور اُس کے فرشتے بھی (انتہیٰ) پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو عظیم الشان شرف حاصل ہے کہ اس عمل میں اللہ تعالیٰ خود شریک ہیں۔ آگے حضرت مفتی صاحب رحمۃاللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ آیتِ مذکورہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف جو نسبت صلوٰۃ کی ہےاس سے مراد رحمت نازل کرنا ہے اور فرشتوں کی طرف سے صلوٰۃ اُن کا آپ کے لیے دُعا کرنا ہے اور عام مؤمنین کی طرف سے صلوٰۃ کا مفہوم دُعا و مدح و ثناء کا مجموعہ ہے۔ عام مفسرین نے یہی معنیٰ لکھے ہیں اور امام بُخاری رحمۃاللہ علیہ نے ابو العالیہ سے یہ نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صلوٰۃ سے مراد آپ کی تعظیم اور فرشتوں کے سامنے مدح و ثناء ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کی تعظیم دنیا میں تو یہ ہے کہ آپ کو بلند مرتبہ عطا فرمایا، کہ اکثر مواقع اذان و اقامت وغیرہ میں اللہ تعالیٰ کے ذکر کے ساتھ آپ کا ذکر شامل کردیا ہے، اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے دین کو دنیا بھر میں پھیلادیا اور غالب کیا اور آپ کی شریعت پر عمل قیامت تک جاری رکھا۔ اس کے ساتھ آپ کی شریعت کو محفوظ رکھنے کا ذمہ حق تعالیٰ نے لے لیا، اور آخرت میں آپ کی تعظیم یہ ہے کہ آپ کا مقام تمام خلائق سے بلند و بالا کیا اور جس وقت کسی پیغمبر اور فرشتے کو شفاعت کی مجال نہ تھی اس حال میں آپ کو مقامِ شفاعت عطا فرمایا جس کو مقامِ محمود کہا جاتا ہے ۔ (اِنْتَہٰی کَلَامُہٗ)