عظمت رسالت صلی اللہ علیہ و سلم |
ہم نوٹ : |
|
درود شریف پڑھنے کا حکم دیا ہے: اِنَّ اللہَ وَ مَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ ؕ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَ سَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا 27؎ بے شک اللہ اور اُس کے فرشتے رحمت بھیجتے ہیں ان پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) پر، اے ایمان والو ! تم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر رحمت بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو (تاکہ آپ کا حق عظمت جو تمہارے ذمے ہے ادا ہوجائے) (بیان القرآن) اس کی تفسیر میں حضرت حکیمُ الامت مجددالملت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃاللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا رحمت بھیجنا تو رحمت فرمانا ہے اور مراد اس سے رحمت مشترکہ نہیں ہے کہ اس سے اختصاص مقصود ثابت نہیں ہوتا بلکہ رحمتِ خاصہ ہے جو آپ کی شانِ عالی کے مناسب ہے، اور فرشتوں کا رحمت بھیجنا اور اسی طرح جس رحمت کے بھیجنے کا ہم (مسلمانو ں) کو حکم ہے اس سے مراد اُس رحمتِ خاصہ کی دعا کرنا ہے اور اسی کو ہمارے محاورے میں درود کہتے ہیں(اِنْتَہٰی کَلَامُہٗ) یعنی اللہ تعالیٰ کے رحمت بھیجنے سے مرادنزولِ رحمت ہے اور رحمت بھی مشترکہ نہیں جو دوسروں کو بھی حاصل ہے، بلکہ وہ رحمتِ خاصہ مراد ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ عالی کے شایانِ شان ہے اور جو مخلوق میں سوائے سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی اور کو حاصل نہیں، اور فرشتوں کے رحمت بھیجنے سے مراد یہ ہے کہ وہ اس رحمتِ خاصہ کی دعا کرتے ہیں اور آیت میں آگے مومنین کو جو رحمت بھیجنے کا حکم ہورہا ہے اس سے بھی مراد اس رحمتِ خاصہ کی دعا کرنا ہے جس کو عرفِ عام میں درود کہتے ہیں اور آیت کا عاشقانہ ترجمہ میں یہ کرتا ہوں کہ: ’’اللہ تعالیٰ اور اُس کے فرشتے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کرتے ہیں، اے مسلمانو! تم بھی میرے نبی سے پیار کرو۔‘‘ حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب گنج مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ ’’صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کا عاشقانہ ترجمہ یوں کرتے تھے کہ اللہ پیار کرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اور سلامت رکھے ان کو۔ _____________________________________________ 27؎الاحزاب:56