عظمت رسالت صلی اللہ علیہ و سلم |
ہم نوٹ : |
|
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)! آپ کے لیے نبوت کس وقت ثابت ہوچکی تھی؟ آپ نے فرمایا کہ جس وقت آدم علیہ السلام ہنوز روح اور جسد کے درمیان میں تھے (یعنی اُن کے تن میں جان بھی نہ آئی تھی) روایت کیا اس کو ترمذی نے اور حدیث کو حَسَنْ کہا۔ 15؎اور حضرت ابو جعفر محمد بن علی (یعنی امام محمد باقر) رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب انبیاءسے تقدم کیسے ہوگیا حالاں کہ آپ سب سے آخر میں مبعوث ہوئے؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے بنی آدم سے یعنی اُن کی پشتوں میں سے اُن کی اولاد کو (عالم میثاق میں) نکالا اور ان سب سے اُن کی ذات پر یہ اقرار لیا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں تو سب سے اوّل (جواب میں) بَلٰی (یعنی کیوں نہیں) محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا اور اسی لیے آپ کو سب انبیاء سے تقدم ہے گو آپ سب سے آخر میں مبعوث ہوئے۔ نشرالطیب کی دوسری فصل ’’سابقین میں آپ کے فضائل ظاہر ہونے میں‘‘یہ روایت منقول ہے کہ حاکم نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مُبارک عرش پر لکھا دیکھا اور اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام سے فرمایا کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو میں تم کو پیدا نہ کرتا۔ 16؎فائدہ: اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت کا اظہار آدم علیہ السلام کے سامنے ظاہر ہے۔ اور حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب آدم علیہ السلام سے چُوک ہوگئی تو اُنہوں نے (جناب باری تعالیٰ میں) عرض کیا کہ اے پروردگار! میں آپ سے بواسطہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے درخواست کرتا ہوں کہ میری مغفرت کردیجیے۔ سو حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے آدم! تم _____________________________________________ 15؎جامع الترمذی:202/2، باب فی فضل النبی صلی اللہ علیہ وسلم، ایج ایم سعید 16؎المستدرک علی الصحیحین للحاکم: 671/2 (4227)، ومن کتاب آیات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ دارالکتب العلمیۃ، بیروت