جب لیلیٰ کے گھر سے گزرتا ہوں تو اس کے درودیوار کو چومتا ہوں لیکن میرا دل گھر پر عاشق نہیں ہے بلکہ جو اس گھر میں ساکن ہے۔
ایک غریب مسکین کو حج کا شوق ہوا تو پیدل ہی نکل پڑا اور راستہ بھر اللہ کے عشق و محبت میں گاتا بجاتا جارہا تھا۔ لوگ اس کو سمجھے کہ کوئی پاگل ہے، آخر مکہ مکرمہ پہنچ کر جب کعبے شریف پر اس کی نظر پڑی تو ایک شعر پڑھا اور وہیں جان دے دی۔ وہ شعر کیا تھا ؎
چوں رسی بہ کوئے دلبر بسپار جان مضطر
کہ مبادا بارِ دیگر نہ رسی بدیں تمنا
اے شخص! جب تو اپنے محبوب مولیٰ کے گھر آگیا تو اپنی جان فدا کردے، نہ جانے ایسا موقع پھر آئے نہ آئے۔ ہوسکتا ہے کہ دوبارہ تجھے اللہ کے گھر آنا نصیب نہ ہو۔ بس یہ شعر پڑھا اور مرگیا، اللہ پر جان دے دی۔
اسلام تو محبت ہی محبت ہے۔ وہ ظالم ہے جو کہتا ہے کہ یہ مصیبت ہے۔ ایسی باتیں کمینہ خصلت ہی کرتے ہیں۔ اب رہ گیا جہاد تو جہاد بھی ظلم نہیں ہے عاشقوں سے پوچھو کہ جان دینا ظلم ہے یا عشق کی انتہا ہے؟ جب محبوب جان سے زیادہ پیارا ہوجاتا ہے تو عاشق جان دے دیتا ہے۔دنیاوی معشوقوں کے لیے بھی ان کے عاشقین کہتے ہیں کہ ؎
نکل جائے دم تیرے قدموں کے نیچے
یہی دل کی حسرت یہی آرزو ہے
جب مرنے گلنے والے دنیاوی معشوقوں پر جان دے کر جان کو ضایع کرنے پر لوگ تیار ہیں، پھر اللہ پر جان دینے سے کیوں گھبراتے ہو جس نے جان عطا فرمائی ہے۔ یہ ہماری قسمت ہے کہ وہ ہمیں قبول کرلیں۔ اللہ کے جانباز کا تو یہ حال ہوتا ہے؎
جو تجھ بِن نہ جینے کو کہتے تھے ہم
سو اس عہد کو ہم وفا کرچلے
لیکن اللہ پر مرنے کے لیے، اللہ پر فدا ہونے کے لیے نظر چاہیے، پیغمبروں کی نظر چاہیے،