تو رین کی کرنسیاں، موٹر کار اور کاروبار مرسڈیز اور ایئرکنڈیشن سب چھوٹ جائے گا اور قبرستان میں تنہا جاؤگے۔ دنیا تو چھوٹ گئی اور مولیٰ کو بھی نہ پایا۔ ارے ظالمو! نہ لیلیٰ کو پایا نہ مولیٰ کو پایا، کس قدر خسارے اور لاس (Loss) میں گئے کیوں کہ لاشئے یعنی لاش پر مررہے تھے اور جو لاشئے پر مرتا ہے وہ لاس میں آجاتا ہے۔
آثارِ تجلّئ جذب
لہٰذا جو شخص اپنے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت، اللہ تعالیٰ کا درد، اللہ کی جستجو اور تلاش کی کیفیت پائے تو سمجھ لو کہ فَسَوۡفَ یَاۡتِی اللہُ بِقَوۡمٍ کی تجلی اس کے دل پر ہورہی ہے اور آج سے اس کی زندگی کے ایک نئے دور کا آغاز ہورہا ہے اور اس کے دل پر اَتٰی یَاْتِیْ کی گردان شروع ہورہی ہے، مگر بائے متعدیہ کے ساتھ یعنی اللہ اپنے عاشقوں کی قوم میں اس کو داخل کررہا ہے۔
اللہ کے باوفا بندوں کی پہلی علامت
اور اس کی علامت کیا ہے؟ یُّحِبُّہُم اللہ تعالیٰ اس سے محبت فرمائیں گے، وَیُحِبُّوۡنَہٗۤ اور وہ بندے بھی اللہ سے محبت کریں گے۔ اللہ نے اپنی محبت کو پہلے اور اپنے عاشقوں کے عشق کو بعد میں کیوں بیان فرمایا؟ علامہ آلوسی تفسیر روح المعانی میں فرماتے ہیں کہ قَدَّمَ اللہُ تَعَالٰی مَحَبَّتَہٗ عَلٰی مَحَبَّۃِ عِبَادِہٖ اللہ نے اپنی محبت کو بندوں کی محبت سے پہلے اس لیے بیان کیا تاکہ میرے بندے جان جائیں اور ایمان لائیں اور یقین کرلیں کہ اِنَّہُمْ یُحِبُّوْنَ رَبَّہُمْ بِفَیْضَانِ مَحَبَّۃِ رَبِّہِمْ6 ؎ یہ جو اللہ سے محبت کررہے ہیں اور ان کو جو روزہ، نماز کی فکر ہورہی ہے،اللہ کی جستجو ہورہی ہے،جنگلوں میں آہ و زاری ہورہی ہے، پہاڑوں کے دامن میں اکیلے رو رہے ہیں اور اللہ والوں کو تلاش کررہے ہیں یہ جتنے کارنامے ہورہے ہیں یہ سب میری محبت کا فیضان ہے۔ یہ ان کے دل میں فَسَوۡفَ یَاۡتِی اللہُ بِقَوۡمٍ کی تجلی کا ظہور شروع ہوگیا ہے، ربا کے فیضانِ محبت کے آثار شروع ہوگئے ہیں۔
_____________________________________________
6؎ روح المعانی:162/6 ،المائدۃ(54) ، داراحیاءالتراث، بیروت