عیسائی ہوگئے تو کوئی فکر مت کرو۔ فَسَوۡفَ یَاۡتِی اللہُ بِقَوۡمٍ یُّحِبُّہُمۡ وَ یُحِبُّوۡنَہٗۤ3 ۙ؎ ہم عن قریب عاشقوں کی ایک قوم پیدا کریں گے جن سے ہم محبت کریں گے اور جو ہم سے محبت کرے گی۔ اور قوم نازل فرمایا اقوام نازل نہیں فرمایا جس سے معلوم ہوا کہ ساری کائنات میں جتنے لوگ اللہ سے محبت کرنے والے ہیں وہ سب ایک قوم ہیں۔ چاہے وہ ملاوی کا ہو یا پاکستان کا ہو، امریکا کا ہو یا افریقہ کا ہو، کالا ہو یا گورا ہو، سارے عالَم کے اللہ کے عاشق اور اللہ سے محبت کرنے والے سب ایک قوم ہیں۔ اگر اللہ کے عاشقوں میں بہت قومیں ہوتیں اور کالے گوروں کا فرق ہوتا تو اللہ لفظ قوم نازل نہ فرماتا،اقوام نازل کرتا کہ ہم اپنے عاشقوں کی اقوام نازل کریں گے لیکن فَسَوۡفَ یَاۡتِی اللہُ بِقَوۡمٍ فرمایا کہ پوری دنیا میں جتنے میرے عاشق ہوں گے وہ سب کے سب ایک قوم ہیں۔ عاشقوں کی قوم الگ تھلگ نہیں ہوتی۔
اللہ کی نشانی
البتہ محبت کی تعبیرکے لیے ان کی زبانوں میں اور رنگ میں اختلاف ہے۔ یہ دلیل اختلافِ قومیت کی نہیں ہے، یہ اختلافِ تعبیرات ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ مختلف زبانوں میں ہمارا نام لیا جائے اور مختلف رنگ کے لوگ ہمیں یاد کریں، یہ ہمارا انتظام ہے۔ اختلافِ السنہ اوراختلاف الوان میں ہم نے اپنی نشانی اور اپنی قدرت کا تماشا دکھایا ہے کہ کوئی بنگالی بول رہا ہے، کوئی انگریزی بول رہا ہے اور کوئی گجراتی بول رہا ہے ؎
وَ مِنۡ اٰیٰتِہٖ خَلۡقُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ اخۡتِلَافُ اَلۡسِنَتِکُمۡ وَ اَلۡوَانِکُمۡ ؕ4؎
تمہارے رنگ اور کلر اور تمہاری زبانیں جو الگ الگ ہیں یہ میری نشانیا ں ہیں لہٰذا اس سے یہ مت سمجھنا کہ ہمارے عاشقوں کی کئی قومیں ہیں۔ رنگ اور زبان کے اختلاف سے قوم کا مختلف ہونا لازم نہیں آتا۔ جو ہم سے محبت کرتا ہے چاہے وہ کسی رنگ اور کسی زبان کا ہو ایک قوم ہے۔ساری دنیاکے عاشق ایک قوم ہیں۔ لہٰذا آپ کو ملاوی مل جائے، افریقی مل جائے، ایشیا کا
_____________________________________________
3؎ المائدۃ:54
4؎ الروم:22