باوفا بندوں کی دوسری علامت
اور محبت کی دوسری علامت کیا ہے؟ اَذِلَّۃٍ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ مسلمانوں کے سامنے اپنے کو مٹادیتے ہیں، مؤمنین سے نہایت تواضع سے ملتے ہیں، اپنے کو سب سے کمتر سمجھتے ہیں، ان میں تکبر نہیں ہوتا۔ حضرت مولانا شاہ وصی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ جب کسی بستی میں بادشاہ فاتحانہ داخل ہوتا ہے تو وہاں کے بڑے بڑے سرداروں اور سرکشوں کو گرفتار کرلیتا ہے تاکہ میری حکومت میں گڑ بڑ نہ کریں۔ تو اللہ تعالیٰ جس کے دل میں اپنی عظمت کا جھنڈا لہراتا ہے تکبر کے چوہدریوں کو پکڑلیتا ہے، پھر اس کے دل میں تکبر نہیں رہتا، وہ مٹ جاتا ہے۔ میرے شیخ حضرت پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ جس آم کی شاخ میں زیادہ پھل آتا ہے وہ جھک جاتی ہے اور جس میں پھل نہیں ہوتا وہ اَکڑی رہتی ہے تو اَکڑے رہنا تکبر کی نشانی ہے اور یہ دلیل ہے کہ اس نے مولیٰ کو نہیں پایا۔ جس کے دل میں مولیٰ آتا ہے تو وہ اللہ کی عظمتوں کے سامنے جھک جاتا ہے، اس کی چال بدل جاتی ہے۔ وَعِبَادُ الرَّحۡمٰنِ الَّذِیۡنَ یَمۡشُوۡنَ عَلَی الۡاَرۡضِ ہَوۡنًا7؎ اللہ کے خاص بندے زمین پر اپنے کو مٹاکر تواضع کے ساتھ چلتے ہیں۔
میرے شیخ حضرت والا پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ ایک زمانے میں اللہ تعالیٰ کی عظمت کا ایسا غلبہ ہوا کہ دو مہینے تک مارے شرم کے عبدالغنی نے آسمان نہیں دیکھا۔ ایسا لگتا تھا کہ اللہ تعالیٰ ہم کو دیکھ رہا ہے۔ جس پر اللہ کی عظمت اور بڑائی کا غلبہ ہوتا ہے، جب اللہ کی عظمت دل میں آتی ہے تو وہ اپنے کو مٹادیتا ہے۔ وہ پھر اَذِلَّۃٍ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ کا مصداق ہوتا ہے۔
کلام اللہ کی بلاغت کا اعجاز
علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہاں عَلٰی کا جو صلہ آیا ہے یہ علمائے نحو کے اجماع کے خلاف ہے۔ ذَلَّ یَذُلُّ کا صلہ لام سے آتا ہے، جیسے ذَلَّ زَیْدٌ نَفْسَہٗ لِفُلَانٍ پھر
_____________________________________________
7؎ الفرقان:63