ہیں یہ لَوْمَۃَ اسم جنس ہے جو سارے عالَم کی ملامتوں کو شامل ہے۔ تو کیا مطلب ہوا اس کا؟ کہ اللہ کےعاشق جو ہوتے ہیں سارے عالم کے اعتراضات اور ملامت کو خاطر میں نہیں لاتے، سارے عالَم کی ملامت کی پروانہیں کرتے۔ علامہ آلوسی فرماتے ہیں کہ لَا یَخَافُوۡنَ لَوۡمَۃَ لَآئِمٍ ؕمعنیٰ میں لَایَخَافُوْنَ مِن لَّوْمَاتِ لَّائِمِیْنَ ہے۔ پھر فرماتے ہیں کہ جب یہی مفہوم ہے تو اللہ نے یہی کیوں نازل نہیں کیا؟ تو فرمایا کہ اگر ایسا ہوتا تو پھر بلاغت نہ رہتی۔ اللہ کا کلام ہے۔ یہاں اللہ اپنے عاشقوں کا مقام دکھا رہا ہے کہ میرے عاشق اور میرے دیوانے سارے عالَم کی ملامتوں کو مثل لَوْمَۃً وَّاحِدَۃٍ 12 ؎ کے یعنی مثل ایک ملامت کے سمجھتے ہیں۔ جیسے کوئی کہے کہ مرغابی سارے عالَم کے دریاؤں کے طوفانوں کو مثل ایک گھونٹ کے سمجھتی ہے۔ یہ بلاغت ہے کہ میرے عاشقوں کے نزدیک سارے عالم کا اعتراض و استہزا و ہنسنا وغیرہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ وہ تو بزبانِ حال یہ کہتا ہے؎
اے دیکھنے والوں مجھے ہنس ہنس کے نہ دیکھو
تم کو بھی محبت کہیں مجھ سا نہ بنا دے
مرے حال پر تبصرہ کرنے والو
تمہیں بھی اگر عشق یہ دن دکھائے
ایک دلچسپ لطیفہ
ایک مولوی صاحب ایک مسٹر دوست کے ہاں گئے۔ وہ اپنے چھوٹے بچے کو لائے اور کہا کہ اس پر دَم کردو۔ بچے نے جب مولوی صاحب کو دیکھا تو زور سے چلّاکر رونے لگا تو اس مسٹرنے کہا کہ مولوی صاحب! جبھی تو ہم لوگ داڑھی نہیں رکھتے کہ بچے بھی اس سے گھبراتے ہیں۔ تو مولوی صاحب نے فرمایا کہ یہ بچہ داڑھی سے نہیں گھبرایا، اصل میں اس نے آج تک ابا کو دیکھا ہی نہیں تھا کیوں کہ تمہاری شکل اور اپنی اماں کی شکل کو دیکھتا ہے کہ ایک جیسی ہے تو یہ سمجھتا ہے کہ شاید میری دو اماں ہیں لَافَرْقَ بَیْنَہٗ وَبَیْنَہَا لیکن آج دیکھا کہ
_____________________________________________
12؎ روح المعانی:164/6،المائدۃ(54)،داراحیاءالتراث، بیروت