و مسجد و خانقاہ کے ایک ایک ذرّہ میں جذب کی کشش بھردے کہ یہا ں جس کا قدم آجائے وہ بھی دردِدل، دردِ نسبت اور دردِ محبت پاجائے، نورِ تقویٰ پاجائے اور ولی اللہ بن جائے۔
دردِ محبت میں اہل اللہ کے خود کفیل ہونے کی مثال
۴) اللہ تعالیٰ نے جس طرح پارس پتھر میں سونا سازی یعنی لوہے کو سونا بنانے کی خاصیت رکھی ہے، آگ میں گرمی اور جلانے کی خاصیت رکھی ہے اور برف میں ٹھنڈا کرنے کی خاصیت رکھی ہے اور ان کی خاصیت بلادلیل تسلیم کی جاتی ہے، اسی طرح اللہ والوں میں بھی اللہ تعالیٰ نے ایک خاصیت رکھی ہے اولیاء سازی کی کہ ان کی صحبت میں رہنے والے ولی اللہ ہوجاتے ہیں۔ اگر آپ آگ جلائیں اور کوئی پوچھے کہ آگ میں گرمی کیوں ہے؟ اسی طرح کوئی کہے کہ چاند سے گرمی نہیں ملتی لیکن سورج میں کیوں گرمی ہے؟ تو آپ یہی جواب دیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں یہ خاصیت رکھی ہے اور سورج کا ایندھن جس سے سورج چمکتا ہے اس کا خرچہ کتنا ہے؟ سائنس دانوں کی تحقیق ہے کہ سارے عالَم میں جتنا ایندھن خرچ ہوتا ہے سورج میں آگ کا ایندھن ایک گھنٹے میں اس سے زیادہ خرچ ہوتا ہے، لیکن یہ ایندھن سورج کہاں سے پاتا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے ایندھن میں سورج کو خود کفیل بنایا ہے، اس کے اندر ہزاروں لاکھوں ہائیڈروجن بم ہر وقت پھٹتے رہتے ہیں جن سے خودبخود آگ پیدا ہوتی رہتی ہے، اگر سورج اپنے ایندھن میں خودکفیل نہ ہوتا تو اتنا ایندھن کہاں سے پاتا؟ جبکہ ساری دنیا کا ایندھن اس کے ایک گھنٹے کے ایندھن کے برابر ہے۔ ایسے ہی اللہ والے جو ہدایت کے سورج ہیں ان کے قلب دردِدل کے ایندھن میں خودکفیل بنائے جاتے ہیں، ان کا یہ ایندھن کہاں سے آتا ہے؟ اللہ تعالیٰ ان کے قلب پر علومِ غیبیہ وارد کرتا ہے، ان کے دلوں کے اندر اپنے دردِ محبت کا ایندھن دیتا ہے، ان کے اندر ہمہ وقت دردِ دل کے ایسے دھماکے ہوتے رہتے ہیں جن سے وہ خود بھی گرماگرم رہتے ہیں اور ان کی برکت سے ان کے پاس بیٹھنے والوں کو بھی ایمانی گرمیاں مل جاتی ہیں اور ایک دن ان کے ہم نشینوں کے قلب بھی ہدایات کے سورج بن کر اپنے دردِ دل کی آگ میں خودکفیل ہوجاتے ہیں اور قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ بس مضمون ختم۔