اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف تزکیہ کی نسبت نہ کرتا، قرآنِ پاک کی طرف نسبت کردیتا کہ قرآن تزکیہ کے لیے کافی ہے، کعبہ تزکیہ کے لیے کافی ہے۔ اگر کعبہ تزکیہ کے لیے کافی تھا تو اپنا تزکیہ کیوں نہیں کیا، خود اپنے بت کیوں نہیں نکالے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ سے بت نکالے۔ اسی طرح اولیاء اللہ بحیثیتِ نائبِ رسول اب دلوں کے بت نکالتے ہیں، کوئی شخص خود اپنے دل سے غیراللہ کے بت نہیں نکال سکتا۔ اس کے لیے اہل اللہ کی ضرورت ہوتی ہے، لہٰذا نفلی حج سے زیادہ ضروری ہے کہ کسی اللہ والے سے دل کے بت نکلوالو تاکہ دل پاک ہوجائے اور اللہ تعالیٰ کی تجلیاتِ خاصہ سے متجلی ہوجائے۔ اس لیے کعبہ میں نفلی حج کرنے والوں سے ایک اللہ والا اعلان کرتا ہے ؎
اے قوم بہ حج رفتہ کجائید کجائید
معشوق ہمیں جاست بیائید بیائید
اے نفلی حج کرنے والو! تم کہاں جارہے ہو؟ تمہارا اللہ، تمہارا مولیٰ تو ہمارے دل میں ہے، اِدھر آؤ، اِدھر آؤ۔ پہلے کسی اللہ والے سے یا اللہ والے کے غلام سے اللہ کو حاصل کرلو۔ جب مولیٰ مل جائے گا پھر جاؤ،پھر حج کرنے جاؤ گے تو کچھ اور مزہ پاؤگے کہ دل میں کعبہ والا اور آنکھوں کے سامنے کعبہ، دل میں کعبہ کا مولیٰ اور مولیٰ کا گھر آنکھوں کے سامنے۔ لیکن یہ بات یاد رکھو کہ جس پر حج فرض ہے وہ فوراً حج کرنے جائے لیکن نفلی حج اور عمرہ سے بہتر ہے کہ پہلے کسی اللہ والے کی صحبت میں رہ کر اللہ کی محبت حاصل کرے، پھر نفلی حج یا عمرہ کرے۔ پس جس کی قسمت اچھی ہوتی ہے اس کو کوئی اللہ والا مل جاتا ہے۔ اللہ جس کو ہدایت دینا چاہتا ہے تو وہ کسی ولی اللہ کے پاس پہنچ جاتا ہے بلکہ اس کو پہنچادیا جاتا ہے، غیب سے انتظام ہوتا ہے۔ ہمارے ایک دوست نے کیا خوب کہا ہے؎
میخانے میں میکش آتے نہیں میخانے میں لائے جاتے ہیں
از خود نہیں بنتے دیوانے دیوانے بنائے جاتے ہیں
سارے عالَم کے عاشقانِ خدا ایک قوم ہیں
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیںفَسَوۡفَ یَاۡتِی اللہُ بِقَوۡمٍ اللہ تعالیٰ اپنے عاشقوں کی ایک قوم