صحبتِ اہل اللہ اور جدید ٹیکنالوجی
اَلْحَمْدُ لِلہِ وَکَفٰی وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی اَمَّا بَعْدُ
فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَ کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ1 ؎
اللہ تعالیٰ کی طرف سے دوستی کی پیشکش
اس آیت کا عاشقانہ ترجمہ میں یہ کرتا ہوں کہ اے ایمان والو! میرے دوست بن جاؤ، میں تمہاری غلامی کے سر پر اپنی دوستی کا تاج رکھنا چاہتا ہوں۔ اس لیے تقویٰ فرض کرتا ہوں، اور ولی اللہ بننا، میرا دوست بننا یہ تمہارا اختیاری مضمون نہیں ہے، لازمی مضمون ہے۔ بتاؤ تقویٰ فرض کرنا کیا اللہ تعالیٰ کا کرم نہیں ہے؟ اور تقویٰ ہی اللہ کی دوستی کی بنیاد ہے۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اِنۡ اَوۡلِیَآؤُہٗۤ اِلَّا الۡمُتَّقُوۡنَ 2؎ اللہ کے اولیاء صرف متقی بندے ہیں۔ پس تقویٰ لازم کرکے گویا اللہ تعالیٰ ہم سب کو غلامی کے دائرے سے اُٹھاکر اپنی دوستی کے دائرے میں داخل کرنا چاہتے ہیں اور اپنی ولایت کا تاج ہمارے سر پر رکھنا چاہتے ہیں، اسی لیے تقویٰ فرض کرکے گویا ہر مؤمن کو اپنا دوست بننا فرض کردیا کیوں کہ اللہ کی دوستی کا مادّۂ ترکیبیہ یعنی(Material) صرف دو ہی جز سے بنتا ہے۔ ایک ایمان دوسرا تقویٰ۔ جس کا ایک جز یعنی ایمان تو تمہارے پاس موجود ہی ہے، دوسرا جز تقویٰ اور حاصل کرلو تو ولی ہوجاؤگے، لیکن اس جز سے تم پیچھے ہٹتے ہو، بھاگتے ہو جبکہ تمہاری طبعی شرافت کا بھی تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کرو کیوں کہ نافرمانی دوستی اور وفاداری کے خلاف ہے۔ مزید
_____________________________________________
1 ؎ التوبۃ:119
2 ؎ الانفال:34