بہکاتا ہے اور گناہ کا وسوسہ ڈالتا ہے لہٰذا جو لوگ گناہ کررہے ہیں وہ سب کے سب شیطان کے مَفْعُوْلْ مَالَمْ یُسَمَّ فَاعِلُہٗ ہیں کہ ان کی پٹائی ہورہی ہے اور انہیں خبر بھی نہیں کہ ان کی پٹائی کرنے والا شیطان ہے کیوں کہ وہ سامنے نہیں آتا، دل میں گناہ کا تقاضا پیدا کرتا ہے۔
وسوسۂ شیطانی اور وسوسۂ نفسانی کا فرق
اس طرح نفس بھی بہکاتا ہے اور وسوسہ ڈالتا ہے لیکن شیطان اور نفس کے وسوسے میں کیا فرق ہے؟ یہ مجدّدِ زمانہ حکیم الامت کی زبان سے سنیے کہ اگر ایک دفعہ گناہ کا وسوسہ آیا اور پھر ختم، تو سمجھ لو کہ یہ شیطان تھا بہکاکر چلاگیا لیکن جب گناہ کا تقاضا بار بار ہو تو سمجھ لو کہ یہ اندر کا دُشمن نفس ہے جو پہلو میں بیٹھا ہوا بار بار تقاضا کررہا ہے کہ یہ گناہ کرلو، یہ گناہ کرلو اور گھر کا دُشمن زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔اِنَّ اَعْدٰی عَدُوِّکَ فِیْ جَنْبَیْکَ 12؎تیرا سب سے بڑا دُشمن تیرے پہلو میں ہے۔
شیطان کا نہایت پیارا خلیفہ
شیطان تو بہت مصروف یعنی ’’بزی‘‘شخصیت ہے، اس کے پاس اتنا ٹائم نہیں ہے کہ ایک ہی آدمی کے پیچھے لگ جائے، اس لیے ایک دفعہ بہکاکر خود تو چلا جاتا ہے لیکن اپناخلیفہ نفس امارہ چھوڑ جاتا ہے جو اس کا بہت ہی پیارا اور فرماں بردار خلیفہ ہے جو گناہ کا بار بار تقاضا کرتا رہتا ہے۔
اللہ والوں کا فیض منتقل ہونے کا ایک راستہ معلوم ہوگیا کہ ان کے ارشادات میں ہدایت ہوتی ہے، نفس و شیطان و معاشرے کے شر سے بچنے کے داؤ پیچ معلوم ہوتے ہیں۔
اہل اللہ کا نورِ باطن منتقل ہونے کے دو راستے
۲) ان کی صحبت سے ان کے قلب کا نور ہمارے قلب میں دو طرح سے داخل ہوتا ہے: ایک تو یہ کہ قلب سے قلب میں فاصلے نہیں ہیں، اجسام میں تو فاصلے ہوتے ہیں لیکن
_____________________________________________
12؎ روح المعانی:57/11 ، البقرۃ (123)،ذکرہ فی باب الاشارات، مکتبۃ داراحیاءالتراث، بیروت