احسان اور کرم بالائے کرم فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی طرف اپنی دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ بندوں نے درخواست نہیں کی تھی کہ اے خدا! ہم سب کو اپنا ولی بنالے کیوں کہ منی اور حیض کے ناپاک مٹیریل(Material) سے پیدا ہوکر بندے اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے کہ وہ اللہ کے دوست ہوجائیں، مگر اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ ہماری مایوسیوں اور نااُمیدیوں کے بادلوں سے اُمید کا چاند طلوع فرمایا اور یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ نازل فرماکرہمیں اپنا دوست بنانے کی پیشکش فرمادی کہ جس چیز کو تم سوچ بھی نہیں سکتے تھے اس کی ہم پہل کرتے ہیں اور اتنے بڑے اور عظیم الشان مالک ہوکر ہم تمہیں اپنا دوست بنانا چاہتے ہیں۔ یہ پہل ہم نے کی ہے، تم نے یہ پہل نہیں کی کیوں کہ تم پہلوان نہیں ہو، کمزور ہو، اپنی قوتِ ارادیہ کی شکست و ریخت سے تم ہمیشہ غم زدہ اور پریشان رہتے ہو، ارادے کرتے ہو لیکن شیطان اور نفس کے غلبے سے وہ پھر ٹوٹ جاتے ہیں تو ایسے کمزو ر وضعیف بندے اللہ کا ولی بننے کا تصور کیسے کرسکتے تھے۔
اللہ تعالیٰ کی دوستی اور محبوبیت کا ایک اور راستہ
لیکن اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا پیارا راستہ بتادیا کہ ہم تمہارے اس ضعف اور کمزوری کے باوجود تمہیں اپنا دوست بنارہے ہیں تاکہ تمہارے ارادے توبہ کے ٹوٹنے نہ پائیں اور اگر ٹوٹ جائیں اور ہماری دوستی میں تم کمزور پڑجاؤ تو پھر توبہ کرلو، پھر اشکبار ہوجاؤ اِنَّ اللہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیۡنَ 3؎ہم توبہ کرنے والوں کا اپنے دائرۂ محبوبیت سے خروج نہیں ہونے دیتے اور توبہ کی برکت سے صاحبِ خطا صاحبِ عطا ہوجاتا ہے اور صاحبِ ذنب لا ذنب ہوجاتا ہے، اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لَّاذَنْبَ لَہٗ4 ؎ توبہ کی برکت سے بندہ ایسا ہوجاتا ہے گویا اس سے گناہ ہوا ہی نہیں اور وہ اللہ کا پیارا اور محبوب ہوجاتا ہے۔ دنیا کے لوگ معافی دیتے ہیں، مگر کہتے ہیں کہ بھئی معاف کردیا لیکن سامنے مت آیا کرو، تم کو دیکھ کر تمہاری اذیتیں یاد آجاتی ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے کسی گناہ گار سے نہیں فرمایا کہ میرے سامنے مت آیا کرو، تمہارے نماز پڑھنے
_____________________________________________
3؎ البقرۃ:222
4 ؎ مشکوٰۃ المصابیح:206، باب الاستغفار والتوبۃ ، المکتبۃ القدیمیۃ