دلوں میں فاصلے نہیں ہیں۔ جیسے ایک بلب یہاں جل رہا ہے اور دوسرا وہاں جل رہا ہے، تیسرا اور فاصلے پر جل رہا ہے تو بلب کے اجسام میں تو فاصلے ہیں لیکن روشنی میں فاصلے نہیں ہیں، کوئی نہیں کہہ سکتا کہ فلاں بلب کی روشنی یہاں تک ہے اور فلاں کی وہاں تک ہے، نور کی کوئی حدِّ فاصل نہیں ہوتی، نور مخلوط ہوتا ہے۔ پس جب ہم اللہ والے کے پاس بیٹھیں گے تو اس مجلس میں اس اللہ والے کا نور اور طالبین کا نور سب کی روشنیاں آپس میں مل جائیں گی اور نور میں اضافہ ہوجائے گا اور قوی النور شیخ کے نور سے مل کر ضعیف النور طالبین کا نور بھی قوی ہوجائے گا اور نور منتقل ہونے کا دوسرا راستہ یہ ہے کہ اللہ والے جب اپنے ارشادات سے اللہ کا راستہ بتاتے ہیں تو کیا ہوتا ہے؟ اس کو مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎
شیخ نورانی زرہ آ گہہ کند
اللہ والے صاحبِ نور اللہ کا راستہ بھی بتاتے ہیں اور ؎
نور را بالفظہا ہمرہ کند
اپنے نورِ باطن کو اپنے لفظوں کے کیپسول میں رکھ کر طالبین کے کانوں کے قیف سے ان کے دلوں میں پہنچادیتے ہیں۔ یہ نور متعدی نور قلب کے متعدی ہونے کا ذریعہ ہے، لہٰذا اپنے قالب کو ان کی مجلس میں لے جاؤ، ان کے پاس بیٹھو اور ان کی باتیں سنو اور عورتوں کے لیے اہل اللہ کی صحبت ان کا وعظ سننا ہے۔ وہ کان کے ذریعے سے صاحبِ نسبت اور ولی اللہ ہوجائیں گی، کانوں سے سنتی رہیں یا ان کے کیسٹ سنتی رہیں اور کیسٹ دستیاب نہ ہوں تو اللہ والوں کی کتابیں پڑھیں لیکن وعظ سننے کا فائدہ زیادہ ہے کتاب سے کیوں کہ وعظ میں ان کا دردِدل براہِ راست شامل ہوتا ہے لہٰذا جہاں وعظ ہورہا ہو پہنچ جاؤ بشرطیکہ پردے کا انتظام ہو، جس پیر کے یہاں دیکھو کہ عورتیں اور مرد مخلوط بیٹھے ہیں تو سمجھ لو یہ پِیر نہیں ہے، پَیر ہے، وہا ں سے اپنے پَیر جلدی سے اُٹھالو اور اُدھر کا رُخ بھی نہ کرو، کیوں کہ یہ اللہ والا نہیں ہے شیطان ہے، شاہ صاحب نہیں ہے سیاہ صاحب ہے اور اس کی خانقاہ نہیں ہے خوامخواہ ہے۔
اہل اللہ سے شدید تعلق و محبت اور اس کی مثال
۳)وہ راتوں میں اپنے پاس بیٹھنے والوں کے لیے اور اپنے صحبت یافتہ لوگوں کے لیے