میں پیار لیتا ہے جس کو ہر ولی سمجھتا ہے، ہر مستغفر سمجھتا ہے اور ہر تائب سمجھتا ہے۔ اس آیت کے لطیفۂ خاص کے مفہوم کی مثال میرے رب نے مجھے عجیب و غریب عطا فرمائی اور یہ تفسیر نہیں ہے، لطائفِ قرآن سے ہے کہ جب ماں اپنے بچے کو دودھ پلاتی ہے تو دودھ کی شیشی پر کپڑا لپیٹ دیتی ہے اور اگر کئی بچے ہیں تو ہر ایک کی شیشی پر الگ الگ کپڑا لپیٹ دیتی ہے تاکہ کہیں میرے ہی بچوں کی نظر میرے بچوں کو نہ لگ جائے، تو اللہ تعالیٰ بھی اپنے پیار اور قرب کی لذّت اپنے اولیاء کو اپنے اولیاء سے چھپاکر دیتا ہے اور ماں اپنے بچوں کو جو دودھ دیتی ہے اس کی تو ایک ہی لذّت ہوتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء کو الگ الگ لذّتِ قرب دیتے ہیں کہ ایک ولی کو دوسرے ولی کی لذّتِ کیف کا تفصیلی علم نہیں ہوتا، اجمالی طور پر تو علم ہوسکتا ہے مگر اللہ کی دوستی اور قرب اور پیار کے تفصیلی مزے کو دوسرا ولی بھی نہیں جانتا، ہر ایک ولی کو ایک منفرد مزہ، ایک بے مثل لذّت حاصل ہوتی ہے۔
وصول الی اللہ کی شرط
جیسا کہ میں نے ابتدا میں عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں دوست بنانے کا جو حکم دیا ہے ا س کو اختیاری نہیں رکھا بلکہ فرض کردیا تاکہ تم خالی میرے مؤمن غلام ہی نہ رہو، مؤمن دوست بن جاؤ، تمہاری غلامی کے سر پر ہم تاجِ ولایت رکھنا چاہتے ہیں مگر بغیر اپنے کو پاک کیے ہوئے تم اللہ پاک کو نہیں پاؤگے، اللہ پاک ہے، ناپاک کو نہیں ملتا۔ جس کا تزکیہ ہوگیا اسی دن وہ ولی اللہ اور صاحبِ نسبت ہوگیا، تزکیہ اور نسبت مع اللہ میں ایک ذرّہ کا فرق نہیں۔ اسی کو مولانا رومی فرماتے ہیں ؎
چوں شدی زیبا بداں زیبا رسی
جب تم بدنظری، عشق مجازی، حسن پرستی، تکبر، غصہ، حسد، کینہ وغیرہ تمام باہی اور جاہی رذائل سے پاک ہوکر زیبا ہوجاؤ گے تو وہ حقیقی زیبا یعنی اللہ تعالیٰ تمہارا پیار کرلے گا کیوں کہ زیبا کسی نازیبا کو پیار نہیں کرتا، زیبا زیبا ہی کو پیار کرتا ہے۔ جس دن مزکّٰی ہوگئے، تمہارے اخلاقِ رذیلہ اخلاقِ حمیدہ سے بدل گئے، اس دن نسبت عطا ہوجائے گی۔ پس گناہ سے اپنی روح اور قلب کو پاک کرلو تو اللہ پاک اپنی تجلیاتِ خاصہ سے تمہارے دل میں آجائے گا ؎