دعائیں کرتے ہیں کہ اے خدا! جو بھی خانقاہ میں آئے محروم نہ جائے۔ ان کی آہ کو اللہ تعالیٰ رد نہیں کرتا۔ دیکھیے! ایک بچہ کسی کے ابّا سے لڈّو مانگ رہا ہے، ابّا اس کو لڈو نہیں دیتا کہ یہ میرا بیٹا تھوڑی ہے لیکن اتنے میں اس کا بچہ آتا ہے اور کہتا ہے کہ ابو یہ میرا کلاس فیلو ہے، میں اس کے ساتھ کھیلتا ہوں اور اسی کے ساتھ پڑھتا ہوں، یہ میرا جگری دوست ہے، جب جگری دوست کہتا ہے تو ابّا کا جگر ہل جاتا ہے کہ میرے بیٹے کا جگری دوست ہے اور فوراً اس کو بھی لڈو دے دیتا ہے، تو اللہ والوں سے جگری دوستی کرو، معمولی دوستی سے کام نہیں بنے گا، اتنی دوستی کرو کہ وہ آپ کو دوست کہہ سکیں اور اللہ سے بھی کہہ سکیں کہ یااللہ! یہ میرا دوست ہے تو اللہ جب ان کو اپنے قرب کا لڈو دے گا تو جس کو وہ اپنا دوست کہہ دیں گے اس کو بھی یہ لڈو مل جائے گا۔ بتاؤ! اس سے زیادہ واضح مثال اور کیا ہوگی۔علامہ ابنِ حجر عسقلانی شرح بخاری میں لکھتے ہیں:
اِنَّ جَلِیْسَہُمْ یَنْدَرِجُ مَعَہُمْ فِیْ جَمِیْعِ مَا یَتَفَضَّلُ اللہُ بِہٖ عَلَیْہِمْ
اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء کے دوستوں کو اپنے اولیاء کے رجسٹر میں درج کرتے ہیں اور ان پر وہ تمام افضال و مہربانیاں فرماتے ہیں جو اپنے اولیاء پر فرماتے ہیں اور اس کی وجہ کیا ہے؟ اِکْرَامًا لَہُمْ13؎ بوجہ اپنے دوستوں کے اکرام کے۔ جیسا کہ مشاہدہ ہے کہ آپ کا کوئی پیارا دوست آتا ہے تو آپ اس کے ساتھیوں کی بھی وہی خاطر مدارات کرتے ہیں جو اپنے اس خاص دوست کی کرتے ہیں لہٰذا اللہ والوں کے ساتھ رہ پڑو اور اتنا ساتھ رہو کہ دنیا بھی سمجھے کہ یہ فلاں کے ساتھی ہیں۔ چناں چہ حضرت عبداللہ ابنِ مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ جارہے تھے کہ ایک تابعی نے پوچھایہ کون ہیں؟ لوگوں نے کہاہٰذَا صَاحِبُ رَسُوْلِ اللہِ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی ہیں۔ صحابی کے اس واقعے سے اختر یہ دلیل پیش کرتا ہے کہ اپنے شیخ کے ساتھ اتنا رہو کہ دنیا کی زبان پر قیامت تک یہ جاری ہوجائے کہ یہ فلاں کے ساتھ تھے۔ جو جتنا زیادہ ساتھ رہتا ہے اتنا ہی گہرا دوست ہوتا ہے اور اگر دوستی کمزور ہو، مثل نہ ہونے کے ہو تو وہ کیسے کہے گا کہ یہ میرا دوست ہے لیکن میں یہ دعا بھی کرتا ہوں کہ یااللہ! جو خانقاہ میں آئے محروم نہ جائے، مدرسہ
_____________________________________________
13 ؎ فتح الباری:213/11، باب فضل ذکراللہ تعالٰی،دارالمعرفۃ، بیروت