یَدْخُلُ اَھْلُ الْجَنَّۃِ الْجَنَّۃَ جُرْدًا مُّرْدًا مُّکَحَّلِیْنَ
جب جنتی جنت میں داخل ہوں گے تو ان کے داڑھی نہیں ہوگی اور نہ ان کی گردن میں اور بغل میں بال ہوں گے۔ مُرْدًایعنی اَمرد ہوں گے۔ ۱۶، ۱۷ سال کے لڑکوں جیسے جن کی داڑھی مونچھ نہ آئی ہو، سارے ایسے ہوں گے۔ لہٰذا اگر آپ کو یہاں داڑھی کچھ کَھل رہی ہو تو یہ مزہ آپ جنت میں لیجیے گا، قبل ازوقت ایڈوانس مزہ نہ لیجیے۔ چند دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرلو، پھر لاکھوں سال کروڑوں سال کیا ہمیشہ ہمیشہ، آپ کے گال چکنے رہیں گے۔ یہ نعمت وہاں کے لیے رکھو۔ یہاں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق زندگی گزارلو۔ اور اہلِ جنت مُکَحَّلْ ہوں گے یعنی آنکھوں میں کاجل لگی ہوگی، قدرتی کاجل، خود نہیں لگانا پڑے گی۔ اور جنت میں انسان کی عمر کیا ہوگی؟
ثَلَاثِیْنَ اَوْ ثَلَاثٍ وَّثَلَاثِیْنَ سَنَۃً18؎
یعنی تیس سال یا تینتیس سال کی عمر ہوگی۔
اس پر ایک صاحب نے اشکال کیا کہ صاحب ہم تو یہاں اٹھارہ سال کو عالمِ شباب سمجھتے ہیں۔ تینتیس سال میں تو آج کل بعضوں کے بال پکنے لگتے ہیں تو علامہ آلوسی نے اس کو حل کردیا کہ اس سے مراد تیس تینتیس نہیں ہے، اس سے مراد کمالِ شباب ہے۔ یہ مت سمجھو کہ ان میں بڑھاپے کے آثار شروع ہوجائیں گے۔ وہاں کے معاملے کو اس دنیا پرقیاس مت کرو، وہاں اور ہی معاملہ ہوگا۔
علامہ آلوسی حوروں کے بارے میں فرماتے ہیں کہ حور کے معنیٰ کیا ہیں؟ حور کا لفظ دوابواب سے آتا ہے نَصَرَ یَنْصُرُاور سَمِعَ یَسْمَعُ اگر سَمِعَ یَسْمَعُ سے آتا ہے تو معنیٰ یہ ہیں کہ آنکھ کی سفیدی نہایت چمکیلی ہو اور پُتلی نہایت کالی ہو۔ اور نَصَرَ یَنْصُرُسے مطلب یہ ہوگا کہ جو حیرت میں ڈال دے۔ یعنی ایسا حسن اللہ تعالیٰ عطا کرے گا کہ آپ محو حیرت ہوجائیں گے۔ کوئی چیز انتہائی عجیب ہوتی ہے جبھی تو آدمی حیرت میں پڑجاتا ہے۔
_____________________________________________
18؎ جامع الترمذی:81/2،باب ماجاء فی سِن اھل الجنۃ،ایج ایم سعید