حیات تقوی |
ہم نوٹ : |
|
کہ ساری دنیا کے غم اُٹھانے کے لیے انسان تیار ہے، مگر اللہ کے راستہ کے غم سے گھبراتا ہے جبکہ اللہ کے راستہ کا غم اتنا معزز غم ہے کہ ساری دنیا کے سلاطین کے تخت و تاج ایک پلڑے میں رکھ دو، ساری دنیا کے لیلیٰ و مجنوں کا حسن و عشق ترازو کے اسی پلڑے میں رکھ دو، ساری دنیا کی دولت اسی پلڑے میں رکھ دو، دنیا بھر کے شامی کباب اور بریانیوں کی لذت اسی میں رکھ دو اور ایک پلڑے پر اللہ تعالیٰ کے راستہ کا ایک ذرّہ غم رکھ دو تو دنیا بھر کی خوشیاں، دنیا بھر کی لذتیں، دنیا بھر کے سلاطین کے تخت و تاج کے نشے اس ذرّہ غم کی برابری نہیں کرسکتے۔ آہ! علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کیا عمدہ شعر فرماتے ہیں ؎ ترے غم کی جو مجھ کو دولت ملے غم دو جہاں سے فراغت ملے اللہ کی محبت کا ایک ذرّہ غم، ان کے راستہ کا ایک ذرّہ غم، گناہ سے بچنے کا غم اُٹھانا ساری کائنات سے، دونوں جہاں سے افضل ہے، اسی غم سے جنت ملے گی،یہ وہ غم ہے جو اللہ سے قریب کرتا ہے، یہ وہ غم ہے جو ولی اللہ بناتا ہے، یہ وہ غم ہے جو دنیا میں بھی سکون سے رکھتا ہے، یہ وہ غم ہے جو جنت تک پہنچائے گا۔ اب اس غم کی قیمت کون ادا کرسکتا ہے؟ ساری دنیا کی خوشیاں اگر اللہ کے راستہ کے غم کو گارڈ آف آنر پیش کریں، سلام احترامی پیش کریں تو اللہ تعالیٰ کے راستہ کے غم کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔ درد بھرے دل سے کہتا ہوں کہ اتنا قیمتی غم ہے ان کے راستہ کا، اسی غم سے خدا ملتا ہے۔ میرا ایک شعر ہے ؎ دامن فقر میں مرے پنہاں ہے تاجِ قیصری ذرّۂ درد و غم ترا دونوں جہاں سے کم نہیں اگر یہ غم بندہ اُٹھالے تو اللہ ظالم نہیں ہے کہ ایک بندہ ہر وقت گناہوں کے تقاضوں سے پریشان ہو لیکن پھر بھی نافرمانی نہ کرے اور غم اُٹھاتا رہے تو اللہ ارحم الراحمین ہے، اس کے دریائے رحمت میں جوش آتا ہے کہ میرا بندہ میرے راستہ کا کتنا غم اُٹھارہا ہے، پہلے داڑھی نہیں رکھتا تھا اب داڑھی رکھ لی، سب مذاق اُڑا رہے ہیں مگر کہتا ہے کہ کوئی پروا نہیں، میرا اللہ تو خوش ہے، آج تم لوگ مذاق اُڑالو، قیامت کے دن ان شاء اللہ تعالیٰ میرا مذاق نہیں اُڑایا جائے گا۔