ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2016 |
اكستان |
|
وقت سامنے آتا ہے کہ جب اِس سے متاثر ہوکر بعض لوگ اِس زاویہ سے اپنے بزرگوں کا تعارف کراتے ہوئے کتراتے ہیں،اُن دانشوروں کو یہ باور کرانا مشکل ہوتا ہے کہ عقائدکے تحفظ کی پاکیزہ خدمت محض ہنگامہ آرائی کرنے یا لاٹھی لے کر فتنوں کے پیچھے صرف دوڑنے کا نام نہیں اور نہ ہی تحفظ عقائد کا اِنحصارکسی فتنہ کے رد اور تعاقب پر ہے ، خدا معلوم کس جاہل سے سبق پڑھ کر اِس قسم کے تاثرات قائم کر لیے جاتے ہیں،ایسے میں یہ کہنے کو جی چاہتا ہے کہ : ہماری نظروں میں آؤ تو ہم دکھا ئیں تمیں خطا تمہاری کہ تم بھی کہو کہ ہاں ! کچھ ہے حقیقت یہ ہے کہ تحفظ عقائد کا باب بہت وسیع ہے کہ بفرضِ محال اگر ہمارے درمیان قادیانیت بابیت و بہائیت ، شیعیت ، وغیرہ فتنے نہ بھی پائے جائیں پھر بھی بحیثیت ِمسلمان ہونے کے ہر مسلمان پر یہ لازم ہے کہ اِسلامی عقائد کو جاننے سمجھنے اور اُس کے تحفظ میں ہمہ وقت چوکسی برتنے میں بیدار رہے ۔ اِس باب میں غفلت کا کہیں سے کہیں تک گزر تو دُور تصور بھی نہیں ہونا چاہیے، فتنے ہمارے مقابل نہ بھی ہوں تب بھی مطلق غفلت بھی اِس باب میں جرمِ عظیم ہے ،چہ جائے کہ ''منفی پہلو '' کہہ کر اِس کی حیثیت کم کی جائے یا کسی غیر معتدل تنقیدو تبصرے سے متاثر ہوا جائے ۔ اِس باب میں نبی اکرم ۖ کی جانب سے جو فضائل وارد ہیں مسلمانوں کی نظر اُن فضائل پر ہونی چاہیے نہ کہ کسی کے بے سرو پا فکر وخیال پر اور جب پختہ فکر بالغ نظر اہلِ علم نے عقائد و اِیمان کے تحفظ میں زندگیاں کھپانے والوں کو '' متکلم '' کا نام دیا ہے اور ہمہ جہت اُن کی اِفادیت تسلیم کی ہے تو نابالغ فکروں کے پروپیگنڈے سے متاثر ہونے کی گنجائش ہی کہاں رہ جاتی ہے ۔ذرا سوچیے تو سہی کہ اِسلامی عقائد کی سرحدوںکو تحفظ فراہم کرنے والے مخلص ومجاہد علمائے کرام اورمتکلمین اگر نہ رہے یا کمزور پڑ گئے تو ناک اور نزلے کی دوا بیچنے والے طبیبوں سے ملک کی حفاظت نہیں ہوا کرتی ۔ ممکن ہے کہ ''منفی پہلو '' کاوہم کسی کو اِس میدان سے جڑی ہوئی کسی تنظیم کے غیر معتدل طریقہائے کار سے یاکسی شخص کی ذاتی اور نجی فکر و عمل کی وجہ سے پیدا ہوتا ہو، اگر ایسا ہے تو یہ فکرتو خو