ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2016 |
اكستان |
|
دُوسری چیز آپ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دُوسری اُمتوں کے مقابلہ میں اِس اُمت پر یہ بھی بڑا اِحسان فرمایا اور فضیلت بخشی کہ اِس اُمت کے اَفراد کے لیے تمام زمین کو سجدہ گاہ قرار دے دیا کہ بندہ زمین کے جس پاک حصے پر چاہے خدا کے سامنے جھک جائے اور نماز اَدا کر لے اُس کی نماز قبول ہو جائے گی جبکہ سابقہ اُمتوں کو یہ سہولت حاصل نہیں تھی اُن کے لیے ضروری تھا کہ وہ اپنے عبادت خانوں میں ہی جا کر عبادت کریں۔ تیسری چیز آپ نے یہ بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے اِس اُمت کے لیے تیمم کو جائز قرار دے دیا کہ اگر پانی نہ ملے یا پانی کے اِستعمال پر قدرت نہ ہو تو پاک مٹی سے تیمم کر کے پاکی حاصل کر لیں اور نماز وغیرہ عبادات کر لیں وہ سب قبول کر لی جائیں گی، یہ سہولت بھی گزشتہ اُمتوں کو حاصل نہیں تھی اُن کے لیے ضروری تھا کہ وہ پانی سے ہی پاکی حاصل کریں۔ یا درہے کہ مندرجہ بالا حدیث میں جو تین فضیلتیں اور خصوصیات ذکر کی گئی ہیں اُمت ِمحمدیہ کی فضیلتیں اور خصوصیات اِن میں منحصر نہیں ہیں، دیگر اَحادیث میں اور بھی بہت سی فضیلتیں ذکر کی گئی ہیں جیسا کہ وہ اَحادیث آپ آگے ملاحظہ فرمائیں گے، اصل بات یہ ہے کہ جتنی جتنی فضیلتوں کا آپ ۖ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے علم ہوتا جاتا تھا آپ اُمت کو بتلاتے جاتے تھے چنانچہ اِس حدیث میں تین کا ذکر ہے ایک حدیث میں پانچ کا اور ایک حدیث میں چھ کا ذکر ہے۔ جمعہ کی نماز کے لیے تین قسم کے لوگ آتے ہیں : عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍوعَنِ النَّبِیِّ ۖ قَالَ یَحْضُرُ الْجُمُعَةَ ثَلٰثَةُ نَفَرٍ رَجُل حَضَرَھَا یَلْغُوْ وَھُوَ حَظُّہ مِنْہَا ، وَرَجُل حَضَرَھَا یَدْعُوْ فَھُوَ رَجُل دَعَا اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ اِنْ شَائَ اَعْطَاہُ وَاِنْ شَائَ مَنَعَہ ، وَرَجُل حَضَرَھَا بِاِنْصَاتٍ وَسُکُوْتٍ وَلَمْ یَتَخَطَّ رَقَبَةَ مُسْلِمٍ وَلَمْ یُؤْذِ اَحَدًا فَھِیَ کَفَّارَة اِلَی الْجُمُعَةِ الَّتِیْ تَلِیْھَا وَزِیَادَةِ ثَلٰثَةِ اَیَّامٍ وَذَالِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ یَقُوْلُ مَنْ جَآئَ بِالْحَسَنَةِ فَلَہ عَشْرُ اَمْثَالِھَا۔ ( اَبوداود ج١ ص١٥٨ باب الکلام و الامام یخطب ، مشکٰوة ص١٢٣)