ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2016 |
اكستان |
|
اور محدثین کی عظمتوں کو روزانہ سلام کرتے ہیں تاکہ قوم کے بچو ںمیں اُس نیک روش پر چلنے کے جذبات بیدار ہوں،ملکی سرحد کو تحفظ فراہم کرنے والے جوانوں اور سائنسی اِیجادات میں پہل کرنے والی شخصیات کے نام اُن کے قدر داں، نہ معلوم کتنی یادگاریں قائم کرتے ہیں تاکہ قوم میں اُن کے نقش قدم پر چلنے والے جیالے پیدا ہوتے رہیں تو کیا اِسلامی عقائدکی سرحدپر محافظین پیدا کرنے کی غرض سے ایسی شخصیات کو اپنے شب وروز کی گرم بازاری میں شامل نہیں کیا جانا چاہیے کہ جن کی قربانیوں کے دم قدم سے مسلمان آج مسلمان ہیں ؟ اِس شکایت و حکایت کے ما بین اِنصاف کی نظر سے اگر دیکھا جائے تو کوشش یہ کی جانی چاہیے کہ اپنے بزرگوں کی اُن خدمات کو جو تحفظ اِیمان و عقائد سے متعلق ہوںیا بزرگوں میں اُن شخصیات کو جن کی خدمات تحفظ عقائد سے متعلق ہوںاپنے درمیان کچھ ایسی اہمیت دی جائے کہ نسل ِنو کا ہر فرد عقائد کی سر حد کا کمر بند سپاہی بننے کو زندگی کا لازمہ سمجھے اورماحولیاتی اَثرات قبول کرتے ہوئے خود کو رضاکارانہ طور پر اِس خدمت کے لیے تیار کرے ۔ حق تو یہ ہے کہ اہلِ مدارس اِس فن کو اپنے نصاب کا جزء بنائیں یا مستقل نصاب وضع کریں تاکہ ہر طالب علم اِس علم و فن کو اَوّلیت دے اور اگر یہ نہیں ہوسکتا تو کم اَز کم اِتنا تو کرے کہ اِس کو پس پشت تو نہ ڈالے ،آئے دن نئے نئے فتنوں کی پیداواراور اُن سے ہم آہنگ زمانہ کی رفتار سے پتہ یہ چلتا ہے کہ اگر اِس میں یونہی بے اِعتنائی برتی جاتی رہی تو کچھ بعید نہیں کہ بہت جلد اِرتدادی طاقتیں ہماری اِس کمزوری کا فائدہ اُٹھانے میں دلیر ہوتی چلی جائیںگی، اِس باب میں کوتاہی اور حددرجہ بے اِعتنائی دیکھتے ہوئے راقم سطور اپنی کم علمی کے سبب یہ کہنے کی جرأت تو نہیں کر سکتا کہ کسی موضوع پر اِس موضوع کو اَوّلیت دی جائے لیکن اگر کوئی اِسے پس پشت ڈالتا یا ثانوی درجہ دیتا ہے تو اِس سے اِس موضوع کی حق تلفی کرنے کی شکایت سے باز بھی نہیں رہ سکتا ۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو تحفظ عقائد کی خدمات کو '' منفی '' پہلو سے تعبیر کرتے ہیںیعنی اُن کی مہذب دُنیامیںیہ مکروہ اور لائق اِحتراز پہلو ہے کیونکہ اُن کے فکر و خیال میں اِس خدمت کا تعلق صرف کسی فتنہ کے رد و اِنکار سے ہے اور بس ! اِس پروپیگنڈے کا سب سے زیادہ افسوسناک پہلو اُس