ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2016 |
اكستان |
|
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی اِیمانی حمیت کا اَندازہ سینکڑوں آیات واَحادیث کے ساتھ ساتھ حضرت اَبو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اِس تاریخی جملے سے بھی ہوتا ہے جو اُنہوں نے ''اِدارۂ خلافت'' کو زکوة دینے سے اِنکار کرنے والوں کے خلاف جہاد کرنے کے حوالے سے اِرشادفرمایا تھا : '' اَیُنْقَصُ الدِّیْنُ وَاَنَا حَیّ '' ١ ''یعنی میرے جیتے جی دین کے اَندر نقص اور کمی آجائے، یہ ممکن نہیں۔'' حضرت صدیق اکبر سے حضرت نانو توی کا نسبی اور رُوحانی رشتہ : صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی حمیت ِ اِیمانی کا حصہ ہر دور میں اُن کے نقش ِ قدم پرچلنے والوں کو نصیب ہوتا رہا اور وہ بہت کٹھن مر حلوں میں بھی جان کی بازی لگا کر حفاظتِ دین، اِشاعتِ دین اور اِقامت ِ دین کے فرائض اَنجام دیتے رہے، اُن ہی جانبازوں میں ایک بڑا نام حجة الا سلام حضرت مولانا محمد قاسم نا نو توی رحمة اللہ علیہ کا بھی ہے جن کے بارے میں یہ کہنامبالغہ نہ ہوگا کہ اُن کو نسبی اور رُوحانی دونوں رشتوں سے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی حمیت ِدینی سے وافر حصہ ملا ہوا تھا جو اُنہیں ہمیشہ بے تاب و مضطرب رکھتا تھا اور اُن کو کبھی چین سے بیٹھنے نہیں دیتا تھا جس کی گواہی اُن کی زندگی کا ہر ورق دیتا ہے۔ چنانچہ یہی وہ حمیتِ اِیمانی تھی جس نے اُنہیں باپ کا اکلوتا بیٹا ہونے کے باوجود ظالم انگریزوں کے خلاف جہادکے لیے اُبھارا اور جن حضرات نے اَسباب کی کمی یا اَمیر نہ ہونے کا حوالہ دے کر جنگ نہ کرنے کی رائے ظاہر کی اُن کو جنگِ بدر میں قلت اَسباب کی یاد دہانی کرائی اور حضرت حاجی اِمداد اللہ صاحب رحمة اللہ علیہ کے ہاتھ پر بیعت ِ جہاد کر کے مطمئن کیا اور بالا آخر شاملی کے میدانِ ١ جا مع الا صول فی احادیث الرسول، مصنف ابو السعادات ابن الاثیر، طبع اَوّل، مکتبہ دار البیان رقم ٦٤٢٦ باب ابو بکر صدیق ج ٨ ص ٦٠١۔