ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2016 |
اكستان |
|
آج پوری دُنیا سودی نظام میں جکڑی ہوئی ہے اور بنک سسٹم پرناز کررہی ہے مگر کیا دُنیا کی تمام طاقتیں خصوصًا بڑی طاقتیں خود غرضی، سنگدلی اور حرص و طمع کے آسیب میں مبتلا نہیں ہیں ؟ اور کیا خوف و ہراس، بے اِطمینانی اور بے اِعتمادی کی وباء تمام دُنیا میں پھیلی ہوئی نہیں ہے ؟ خود غرضی اور سنگد لی سود کاجواز پیدا کرتی ہے اور جب سود ملتا ہے تو اِن خصلتوں میں اور اِضافہ ہوجاتا ہے اور جب یہ خصلتیں قوم کامزاج بن جاتی ہیں تووہ بحران رُو نماہوتا ہے جو آج دُنیا پر طاری ہے کہ زیادہ سے زیادہ مہلک آلات اِیجادہو رہے ہیں جوبڑی سے بڑی قو موں کوبد حواس کیے ہوئے ہیں، اِنتہا یہ کہ سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک بھی یہی سمجھ رہا ہے کہ وہ آتش فشاں پر بٹھا ہوا ہے۔ نوعِ اِنسانی کے لیے اِس سے زیادہ آسیب کیا ہو سکتا ہے اور کیا اِس مشاہدہ کے بعد بھی اِرشاد ِ ربانی کی تصدیق کے لیے کسی اور مشاہدہ کی ضرورت ہے۔ اللہ کے لیے قرض اور قومی قرضہ یاقرضہ ٔ جنگ : حکومتیں تر قیاتی منصوبوں اور دفاعی ضرو رتوں کے لیے قوم سے قرض لیتی ہیں۔ کیا عجیب ہے قرض کی اِصطلاح اُنہوں نے قرآنِ حکیم سے سیکھی ہو، اگرچہ اِس اِصطلاح پر جس طرح عمل کیا جاتا ہے وہ منشاء قرآنی کے سراسر خلاف ہے کیونکہ وہ قرض کے مقصد اور معنی کومسخ کر دیتا ہے۔ قرآنِ پاک جس کو قرض کہتاہے اُس کا اَثر یہ توہو سکتا ہے کہ دولتمند کی اُبھری ہوئی سطح پست ہوجائے کیونکہ اِس قرض میں کبھی دولت کا بھی مطالبہ ہو جاتا ہے کہ جو کچھ اَفزود ہے سب خرچ کرو۔ (سورۂ بقرہ : ٢١٩) لیکن یہ ہرگز نہیں ہو سکتاکہ غریب کی غربت بڑھ جائے اور پسماندہ طبقہ اور پست ہوجائے، اِن کے بر عکس رائج الوقت سرکاری قر ضوں کا اَثر یہ ہوتا ہے کہ اَمیر زیادہ اَمیر اور غریب زیادہ غریب ہوجاتا ہے، اور اَمیری اور غریبی کے درمیان کا فاصلہ اگر پہلے دس گز تھا تو اَب پندرہ گز ہوجاتا ہے کیونکہ حکومت کا قرض سود سے خالی نہیں ہوتا ،یہ سود مختلف قسم کے ٹیکس لگا کر عوام سے وصول کیا جاتا ہے اور قرض دینے والوں کو اَدا کیا جاتا ہے ،غریب جو ٹیکس اَدا کرتاہے اُس کے عوض میں اُس کو کچھ نہیں ملتا