ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2016 |
اكستان |
|
مِلکیت کی حقیقت اور حقیقی مالک مِلکیت : مسئلہ ملکیت اُن ذہنوں میں اُلجھا ہوا ہے جو خدا شناسی کی روشنی سے محروم ہیں، جو صاحب ِعقل و بصیرت خدا پر اِعتقاد رکھتے ہیں جن کو یقین ہے کہ پوری کائنات اور کائنات کی ہر چیز کا خالق اللہ تعالیٰ ہے وہ یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ مالک وہی ہے جو خالق ہے جو رب ہے جو پرور دگار ہے۔ اگر شیئر ہو لڈروں اور کمپنی کے حصہ داروں کو اِس لیے مالک مانا جاتا ہے کہ اُنہوں نے رقم لگائی ہے میٹریل فراہم کیا مزدُوروں کی مزدُوری اَدا کی یا مزدُوروں کی ملکیت کادعوی اِس لیے کیا جاتا ہے کہ محنت پیدا وار کی اصل ہے، اُنہوں نے محنت کر کے جو مال تیار کیا تو جومال تیار کرنے والا ہے وہی مالک ہونا چاہیے تو اِن دلائل کی بنیاد پر حقیقی مالک اُس کو کیوں نہیں مانا جائے گا جس نے مال تیار کرنے والے کو تیار کیا، جس نے میٹریل پیدا کیا جو سر مایہ دار اور مزدُور دونوں کا خالق ہے، جس نے سر مایہ دار کو سر مایہ بخشا تو مزدُور کو وہ قوت عطا کی جس سے وہ مزدوری کر تا ہے اُس کے ہاتھ پیر اور وہ تمام اَعضاء بنائے جن سے وہ کام لیتا ہے۔ تو حید : تو حید یہ ہے کہ جس طرح پوری کائنات اور کائنات کی ہر شے کاخالق خدا کو مانا جائے، ایسے ہی ہر شے کامالک بھی اُسی کو مانا جائے، یہ صرف اُسی کی عطا ہے کہ اُس نے ہمیں نیست سے ہست کیا یعنی نیست کوجامۂ وجودپہنایا،یہ صرف اُسی کا کرم ہے کہ کائنات کی ہستیاں ہمارے لیے مخصوص کردیں ہمیں اُن پر اِقتدار بخشا اور اُن کے اِستعمال کا حق عطافرمایا۔ قرآنِ پاک اِسی فلسفہ کو ذہنوں میں پیوست کرتاہے اور صاحب ِاِیمان کا ذہن اِسی فلسفہ کوحق سمجھتا ہے، اِن حقائق کا کون اِنکار کر سکتا ہے جن کی طرف قرآنِ پاک نے تقریبًا ڈیڑھ سو آیتیں میں اِرشاد فرمایا ہے جن میں سے چند یہ ہیں : ( اَللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیْئٍ ) اللہ پیدا کرنے والا ہے ہرچیز کا۔ (سورۂ زمر : ٦٢ ) ( خَلَقَ کُلَّ شَیْئٍ ) ہر چیز کو پیدا کیا (سورۂ اَنعام : ١٠١)