ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2016 |
اكستان |
|
( ھَلْ مِنْ خَالِقٍ غَیْرُ اللّٰہِ ) کیاکوئی پیدا کرنے والا ہے اللہ کے سوا ؟ (سورۂ فاطر : ٣)( فَاَرُوْنِیْ مَا ذَا خَلَقَ الَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِہ) پس مجھے دِکھاؤ وہ کیا ہے جس کواللہ کے علاوہ دُوسروں نے پیدا کیا۔ (سورۂ لقمان : ١١ ) (وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ ) اللہ نے بنایا تم کو اور اُن چیزوں کو جن کو تم بناتے ہو۔ (سورة الصافات : ٩٦) جب وہ اِنسان کاخالق اُس کی معمولات و مصنوعات کا خالق، اِنسان کے علاوہ کائنات کی ہر چیز کاخالق ہے تو لا محالہ ہرچیز کا مالک بھی ہے، جو چیز بھی ہے وہ اُسی کی ہے اور صرف اُسی کی ہے۔( لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ) اللہ ہی کاہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ (سورۂ بقرہ : ٢٨٤) قاضی القضاة (چیف جسٹس) عبید اللہ بن المسعود اَلحنفی اَلمتوفٰی٧٤٥ھ/ ١٣٤٤ء صاحب ِ شرح الو قایہ عرف ''صدر الشریعة الثانی'' نے( مِلک کی )یہ تعریف کی :ھُوَ اِتِّصَال شَرْعِیّ بَیْنَ الْاِنْسَانِ وَبَیْنَ شَیئٍ یَکُوْنُ مُطْلِقًا لِتَصَرُّفِہ فِیْہِ وَ حَاجِزًا عَنْ تَصَرُّفِ الْغَیْرِ فِیْہِ ۔ (شرح الو قایہ) ''مِلک اِنسان اور کسی چیز کے درمیان شریعت کا تجو یز کردہ ایسا تعلق ہے جواُس شخص کے لیے جائز قرار دیتا ہے کہ وہ اُس شے میں تصرف کرے اور دُوسرے کے تصرف کو روکتا ہے۔ '' شا رح ہدایہ، علامہ کمال بن الہمام متوفٰی ٨٦١ھ/ ١٤٥٧ء کی تعبیر یہ ہے :( اَلْمِلْکُ قُدْرَة یُثْبِتُھَا الشَّارِعُ اِبْتَدَائً عَلَی التَّصَرُّفِ اِلاَّ لِمَانِعٍ ۔ (بحوالہ الاشباہ و النظائر ص ٥٣١ القول فی الملک الفن الثالث) ''مِلک، تصرف کرنے کی وہ قدرت ہے جو شریعت نے بلا واسطہ ثابت کی ہو بشرطیکہ کوئی مانع نہ ہو۔''