ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2016 |
اكستان |
|
''اے لوگو ! ڈرو اُس خدا سے جس نے تم کو ایک اِنسان (آدم علیہ السلام) سے پیداکیا، اُس جانِ واحد سے اُس کا جوڑا بنایا پھر اِن دو سے بے شمار مرد اور عورتیں پھیلادیں، (پس دیکھو) اللہ سے ڈرو جس کے نام پر آپس میں ایک دُوسرے سے (محبت اور حسن ِ معاملہ کا) مطالبہ کیا کرتے ہو، نیز رشتہ داری اور قرابت کے معاملہ میں تقویٰ سے کام لو۔ اللہ تعالیٰ (تمہارے اَعمال کا) نگران حال ہے۔ '' پھر سورۂ حشر کے آخری رکوع کی اِبتدائی آیتیں پڑھیں : ''اے اِیمان والو ! ڈرتے رہو اللہ سے اور چاہیے کہ دیکھ لے ہر شخص کہ اُس نے کیابھیجا کل کے واسطے۔ ''(سورہ ٔ حشر : ١٨) پھر آپ نے فرمایا : ''دینار، درہم، کپڑا، صاع بھر گیہوں، صاع پھر کھجور جس کے پاس جو ہو صدقہ کردے۔ (راہ ِ خدامیں دے دے ) کچھ نہ ہو، کھجور کا ایک ٹکڑا وہی دے دے۔'' حاضرین نے اِرشاد ِ گرامی سنااور جو کچھ کسی کے پاس تھا لانا شروع کردیا۔ (سب سے پہلے ایک اَنصاری ایک بوری لے آیا جو اِتنی وزنی تھی کہ وہ اُس کے اُٹھانے سے عاجز ہوئے جا رہے تھے پھرنمبر لگ گیا یہاں تک کہ غلہ اور کپڑوں کے دو ڈھیر کھڑے ہوگئے۔ آنحضرت ۖ کا چہرۂ مبارک خوشی سے چمکنے لگا۔) (مسلم شریف ، الحث علی الصدقة ج ١ ص ٣٢٧ ) اِسی جیسے موقع پر آپ نے ایک مرتبہ یہ بھی فرمایا : اِتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ آگ سے بچو ،اگر کچھ نہ ہو کھجور کا ایک ریزہ ہی دے کر۔ (مسلم شریف ١/ ٢٢٧۔ بخاری شریف رقم الحدیث ١٤١٧ ، وغیرہ) یعنی ایسے مو قع پر جبکہ فاقہ کی حالت سامنے ہوجو کچھ ممکن ہو اُس کا خرچ کر ڈالنا واجب ہے اگر خرچ نہ کیا تو عند اللہ عذاب کا مستحق ہوگا۔ قرآنِ حکیم ایسے صَرف کواللہ تعالیٰ کے ذمہ قرض تسلیم کرتا ہے۔ اِس قرض سے عوام کی ضرورت پوری ہو رہی ہے اُن کی سطح بلند ہو رہی ہے اور اہلِ ثروت کااَخلاقی فرض اَدا ہو رہاہے، خود غرضی اور سنگد لی کے بجائے آپس میں محبت، ہمدردی اور اِحترام کے جذبات بڑھ رہے ہیں، یہ نعمت ِ کبری ہے جس کی رہنمائی قرآنِ حکیم کررہاہے۔