ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2014 |
اكستان |
|
آج جیسا کہ تصویر اور فوٹو کی ضرورت سے مطلقاً اِنکار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ موقع بموقع فوٹو کی شدید ضرورت پیش آتی رہتی ہے مثلاً سرکاری آفسوں میں ملازمتوں، بینکوں، مدارس اور کالج کے فارموں میں ،شناختی کارڈ اور حج کی درخواستوں میں وغیرہ وغیرہ، اِسی طریقہ سے پریس اورمیڈیا والے حادثے کی تصویر کو بطورِ ثبوت پیش کرتے ہیں نیز ڈاکٹر حضرات بھی زخموں کے علاج میں نیز دیگر بیماریوں مثلاً دانتوں اور آنکھوں کے علاج میں اور پیٹ کے اَندرونی علاج میں بھی کیمروں کا اِستعمال کرتے ہیں ، اِسی طریقہ سے ریلوے اسٹیشنوں اور ہوائی اَڈوں پر لوگوں کی نقل وحرکت پر نظر رکھنے کے لیے بھی کیمروں کا اِستعمال ہوتا ہے ، اِس کے ساتھ ساتھ R&D جو حکومت کا ایک حساس اِدارہ ہے جو نہ صرف عوام بلکہ پورے ملک کی حفاظت کے لیے کام کرتا ہے اُس میں بھی کیمروں کی ضرورت پڑتی ہے اور اِس شعبہ کے کیمروں کی مرمت کا کام بھی زید کے سپرد ہے۔ اَب ایسی صورتِ حال اور ایسے مواقع کہ جن میں فوٹو کی شدید ضرورت پڑتی ہے اور شرعاً ایسے مواقع میں فوٹو کی اِجازت بھی ہے تو کیا اِن حالات میں زید کے لیے کیمروں کی مرمت کرنا درست ہے یا نہیں ؟ نیز زید کے لیے کیمروں کی مرمت پر حاصل ہونے والی اُجرت اور کمائی حلال ہو گی یا نہیں ؟ واضح رہے کہ زید صرف کیمروں کی مرمت کرتا ہے، فوٹو گرافی اور فوٹو سازی وغیرہ کا کام نہیں کرتا ہے۔آپ سے درخواست ہے کہ اُصولِ شرع کی روشنی میں مفصل جواب تحریر فرما کر عنداﷲ ماجور ہوں۔ اَلمستفتی شیخ محمد غوث، کیمرہ ٹیکنیشن ١٦ بیس مینٹ ایم جی روڈ، وَنڈر لینڈ، پونہ ٤١١٠٠١ ١٣جمادی الثانی١٤٣٢ھ