ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2014 |
اكستان |
|
( وَاٰتَیْنٰہُ مِنَ الْکُنُوْزِ مَآ اِنَّ مَفَاتِحَہ لَتَنُوْئُ بِالْعُصْبَةِ اُولِی الْقُوَّةِ )(القصص : ٧٦ ) ''اور ہم نے دیے تھے اُس کو خزانے اِتنے کہ اُس کی کنجیاں اُٹھانے سے تھک جاتے تھے کئی مردزور آور۔'' اِس کے پاس بڑی تعداد میں گھوڑے اور سواریاں بھی تھیں، علاوہ اَزیں خادموں کی بھی ایک تعداد تھی جو خدمت گزاری اور حفاظت کے لیے ہمہ وقت کمر بستہ تھے۔ اِس کی سواریوں کی زینوں کو سونے چاندی اور تانبے سے مزین کیا جاتا اور جب وہ سواریوں پر سوار ہو کر باہر نکلتا تو سورج کی روشنی میں سونا اور تانبا خوب چمکتے اور آنکھیں چندھیا جاتیں۔اِسی طرح اُس کی سواریوں کو سونے اور چاندی سے مرکب کشتہ جات کھلائے جاتے تھے۔ قارون کو چاہیے تھا کہ اللہ کا شکر اَدا کرتا لیکن اُس نے نافرمانی شروع کردی اور تکبر میں مبتلا ہو کر غرور و تکبر کی تمام حدیں پھلانگ گیا حتی کہ بنی اِسرائیل کے کچھ عقلاء نے اُسے نصیحت بھی کی کہ غرور نہ کر اور فقراء و مساکین اور محتاج لوگوں کو فراموش نہ کر لیکن قارون نے حسب ِمعمول اُن کا مذاق اُڑایا اور ضلالت و گمراہی میں مگن ہو گیا اور یہ خیال کرنے لگا کہ مال و دولت کی کثرت صرف اُس کے علم کی وجہ سے ہے، کہنے لگا کہ : ( اِنَّمَا اُوْتِیْتُہ عَلٰی عِلْمٍ عِنْدِیْ ) (سُورة القصص : ٧٨) ''یہ مال تو مجھے مِلا ہے ایک ہنر سے جو میرے پاس ہے۔'' یہ بات بالکل پس ِپشت ڈال دی کہ اللہ نے اُس سے زیادہ مال و دولت اور علم والے لوگوں کو تباہ و برباد کردیا ہے۔ اُس نے کسی کی بھی نصیحت قبول نہیں کی حتی کہ ایک دِن اپنی شان و شوکت والی سواریوں پر سوار ہو کر خادموں کے جلو میں قوم کے پاس آیا۔ کمزور اِیمان والے اور اللہ کی حکمتوں سے بے خبرلوگوں نے اِسے دیکھا تو کہنے لگے : ( یٰلَیْتَ لَنَا مِثْلَ مَآ اُوْتِیَ قَارُوْنُ اِنَّہ لَذُوْحَظٍ عَظِیْمٍ )(سُورة القصص : ٧٩) ''اے کاش ! ہم کو ملے جیسا مِلا ہے قارون کو،بے شک اُس کی بڑی قسمت ہے۔''