ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2014 |
اكستان |
|
توشرعًا یہ باتیں جھوٹ نہیں ہیں کیونکہ گناہ نہیںلکھا گیا جھوٹ کا مطلب ہے گناہ وہ نہیں ہے، ایک آدمی کی طرف سے جا کر کہتا ہے کہ اُنہوں نے سلام کہا تھا آپ کو حالانکہ اُنہوں نے سلام نہیں کہا تو یہ کیا ہے ؟ یہ جھوٹ ہے، کہاں کہا ہے سلام اُنہوں نے ! مگر یہ کہہ دینا کہ اُنہوں نے سلام کہا ہے وہ خیریت پوچھتے تھے آپ کی وغیرہ وغیرہ،اَب یہ باتیں اُس نے اپنی طرف سے بنادیں تاکہ اُن کے تعلقات اچھے رہیں یہ جھوٹ ہے یا نہیں ؟ تو ڈکشنری میں دیکھو تو جھوٹ ہے اور ویسے ،ویسے فرمایا کہ یہ ثواب ہے لَیْسَ الْکَذَّابُ الَّذِیْ یُصْلِحُ بَیْنَ النَّاسِ ١ جو آدمی لوگوں میں صلح کرائے وہ کذاب نہیں وہ جھوٹا نہیں۔ اور جو ایسا سچ بولے کہ جس سے فساد کھڑا ہوجائے اور فساد جب کھڑا ہوتا ہے تو بڑھتا چلا جاتا ہے رُکتا ہی نہیں وہ سچ جو ہے وہ ثواب کے قابل نہیں رہا اللہ کی نظر میں، اُس کو چھپائے رکھو اُس کو ظاہر کرنا ضروری نہیں بلکہ بعض دفعہ جیسے میں نے مثال دی ہے اُس چپڑاسی کے لیے تو گناہ ہے یہ بتا نا، وہ یہ کہہ دے کہ اُس کی درخواست آگئی نہیں آسکی وہ آج، تاکہ وہ ٹل جائے ۔ تو ایسے ہی گزارا ماں باپ کے ساتھ ہے ایسے ہی گزارا بہن بھائیوں کے ساتھ ہے ایسے ہی میاں بیوی کا بھی ہے اِن تمام اُمور میں حسن ِ تدبیر کی اِجازت دی گئی ہے اور اُس میں جو آدمی سے ایسی بات ہوتی ہے کہ جس سے ٹھنڈک پڑے اور فتنہ نہ اُبھرے اور بے چینی نہ پیدا ہو گھر میں وہ منع نہیں ہے ، میاں بیوی کا اِسی طرح کا نازک تعلق ہوتا ہے ذرا سی بات ہوجائے تلخی ہوجائے طلاق کا لفظ نکل جائے تعلقات ہی ختم ہوجاتے ہیں وہ اَجنبی بن جاتی ہے تو ایسی صورت میں سچ ہی بولتا رہے تو یہ کون سی بات ہو گئی ،اِس سے تو تعلقات خراب ہوجاتے ہیں تو شریعت ِ مطہرہ نے تو بہت اُوپر کی بات کی ہے بہت آگے تک کی بات کی ہے ڈکشنری والوں کا تو کام نہیں ہے وہاں تک پہنچنا ۔ تو اللہ تعالیٰ نے آقائے نامدار ۖ کے ذریعے ہمیں رہن سہن کے طریقے بتائے اور یہ کہ رہن سہن کے یہ طریقے اِختیار کرو گے تو عبادت بنتی چلی جائے گی تو ماں باپ کی نافرمانی نہ کرو یہ بتلادیا۔ ١ بخاری شریف کتاب الصلح رقم الحدیث ٢٦٩٢