ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2014 |
اكستان |
|
اور فصیح اور سب پلے بڑھے وہیں عرب میں اور عربی کی خدمت کی ہے بہت زیادہ مگر زبان سمجھ کر اپنی تو ڈکشنری اور چیز ہے اور دین اور چیز ہے اور قرآنِ پاک اور دین کو سمجھنا اگر ہے تو پھر حدیث سمجھنی پڑے گی صحابہ کرام سے پوچھنا پڑے گا کہ اُنہوں نے کیا سمجھا ہے رسول اللہ ۖ نے جو یہ جملہ فرمایا تھا یہ کس مطلب سے فرمایا تھا تو وہ اَندازِ بیان دیکھنے والے تھے تو اَندازِ بیان دیکھنے والا جو بیان کرے گا تووہ مراد ہوگی اُس سے وہی لی جائے گی ۔ تو اِس میں یہ بھی ہے کہ بیوی اَب گھریلو معاملات میںبات بات پر بگڑ جائے گی خفا ہوجائے گی زندگی گزارنی مشکل ہوجائے گی باہر سے آپ آئیں گے کار خانے سے دُکان سے کہیں حساب کر کے آرہے ہیں کوئی دفتر سے آرہا ہے تھکا ہوا گھر میں آتا ہے اور گھر میں آتے ہی پھر تلخی تو اُسے تو ضرورت ہے آرام کرنے کی وہ تھکا ہوا آیا ہے اور یہاں آتے ہی گھر میں اُلٹی سیدھی باتیں شروع ہوجائیں تو وہ آرام کہاں گیا وہ تو تکلیف ہوگئی اُسے تو ایسی صورت میں کیا کرے گزارا تو کرنا ہے تو شریعت ِ مطہرہ نے پھر یہاں اِس طرح کی باتیں کرنے کی اِجازت دی ہے جس سے تعلقات خوشگوار رہیں تو اُس میں اگر ضرورت پڑجاتی ہے ایسی بات کہنے کی کہ جو واقع میں نہیں ہوئی مگر وہ خوش ہوجائے گی تو پھر یہ ٹھیک ہے بالکل اِس میں ثواب ہے۔ بعض دفعہ دماغوں میں خلل ہوجاتا ہے بیویوں کے ایسے خطوط آتے ہیں یہ بھی ہے وہ بھی ہے اور میاں کو آنے میں دیر ہوگئی اور اُس کی بیوی کا دماغی توازن جو صحیح نہیں ہے وہ سمجھتی ہے کہ کہیں اور گیا ہے فلاں جگہ گیا ہے کسی اور سے تعلقات قائم کر چکا ہے اور ایسے ہی ماں باپ کا بھی ہوجاتا ہے وہم میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور بیچارے (شوہر)اللہ جانے اُن کو کتنا ثواب ملتا ہوگا، ہنڈیا بھی خود ہی پکانی پڑتی ہے تو اَب اُس میں اُس کو ایسی بات کرنی ہے کہ جس سے اُس کو شفا ہو یہ ضروری ہے جس طرح بھی اُسے شفا ہو تشفی ہو اَگر بالکل سچ بولے گا کورا جواب دے دے گا تو وہ ٹھیک نہیں ہے۔ تو اِس میں یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ شرعًا جھوٹ کسے کہتے ہیں اور سچ کسے کہتے ہیں ؟