حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا: مَنْ فُتِحَ لَہُ مِنْکُم بَابُ الدُّعَائِ فُتِحَتْ لَہُ اَبْوَابُ الرَّحْمَۃِ۔۔۔۔۔۔ (ترمذی) تم میں سے جس کے لئے دُعا کا دروازہ کھل گیا اس کے لئے رحمت کے دروازے کھل گئے اور اللہ کو سب سے زیادہ محبوب یہ ہے کہ بندہ اس سے عافیت کی دُعا کرے۔
حضور اکرم ﷺنے دُعا کومؤمن کا خاص ہتھیار یعنی اس کی طاقت بتایا ہے، (الدُّعَائُ سِلاحُ الْمُوْمِنِ) (رواہ ابویعلی وغیرہ)۔ دُعا کو ہتھیار سے تشبیہ دینے کی خاص حکمت یہی ہوسکتی ہے کہ جس طرح ہتھیار دشمن کے حملہ وغیرہ سے بچاؤ کا ذریعہ ہے، اسی طرح دعا بھی آفات سے حفاظت کا ذریعہ ہے۔
حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ تمہارے پروردگار میں بدرجہ غایت حیا اور کرم کی صفت ہے، جب بندہ اس کے آگے مانگنے کے لئے ہاتھ پھیلاتا ہے تواس کوحیا آتی ہے کہ ان کوخالی ہاتھ واپس کردے، یعنی کچھ نہ کچھ عطا فرمانے کا فیصلہ ضرور فرماتا ہے۔ (سنن ابی داؤد) حضور اکرم ﷺ کا یہ ارشاد درحقیقت سائل کے لئے اُمید کی کرن ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسا کریم ہے جومانگنے والوں کوکبھی محروم نہیں کرتا اور بندہ کی مصلحت کے مطابق ضرور عطا کرتا ہے۔
قرآن وحدیث سے جہاں دُعا کی اہمیت وفضیلت اور پسندیدگی معلوم ہوتی ہے، وہیں