Deobandi Books

کوثر العلوم - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

8 - 31
شَیْئٍ قَدِیْرٌ
(اور اگر تم ظاہر کرو ان باتوں کو جو تمہارے دلوں میں ہیں یا چھپاؤ بہر حال اﷲ تعالیٰ تم سے ان کا محاسبہ فرمائیں گے ۔ پھر جس کو چاہیں گے معاف کر دیں گے اور جس کو چاہیں گے عذاب دیں گے اور اﷲ تعالیٰ کو ہر بات پر قدرت ہے ) یہاں بظاہر لفظ ’’ما‘‘ عام ہے وساوس غیر اختیاریہ اور خیالات اختیار یہ سب کو ۔ اور عموم ہی کی وجہ سے صحابہ ؓ کو اشکال ہوا تھا مگر اس کا منشا عدم علم نہ تھا ۔ صحابہ جانتے تھے کہ اﷲ تعالیٰ امور غیر اختیاریہ پر مواخذہ نہیں فرمائیں گے کیونکہ یہ مسئلہ عقلیہ بھی ہے ۔ بلکہ غلبۂ خشیت کی وجہ سے ان کو عموم کا شبہ ہوا کیونکہ لفظ بظاہر عام تھا ۔ اور خشیت وہ چیز ہے کہ جب اس کا غلبہ ہوتا ہے اس وقت علم پر نظر نہیں رہتی بلکہ علم مغلوب ہو جاتا ہے ۔
خشیت کی حد
قربان جائے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے کہ آپ نے خشیت کی بھی ایک حد بیان فرمادی ۔ حضو ر کے سوا اس کو کوئی نہیں بیان کر سکتا تھا ۔ ہم تو خشیت کے ہر درجہ کو مطلوب سمجھتے کیونکہ خدا تعالیٰ سے ڈرنا محمود اور مقصود ہے اور مقصود کا ہر درجہ ظاہراً مقصود ہوتا ہے ہم کو تو ظاہر میں یہی معلوم ہوتا ہے ۔مگر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس علم عظیم کو ظاہر فرمایا ہے کہ مقصود کے لیے بھی یہ ضرور نہیں کہ اس کا ہر درجہ مقصود ہو بلکہ مقاصدبھی ایک خاص حد تک مطلوب ہیں چنانچہ خشیت کے بارے میں آپ فرماتے ہیں۔
واسئلک من خشیتک ما تحول بہ بینی وبین معاصیک
اے اﷲ! میں آپ کا خوف اتنا چاہتا ہوں جس سے مجھ میں اور معاصی میں رکاوٹ ہوجائے ۔ اس سے زیادہ خشیت کو آپ نے طلب نہیںکیا ۔ معلوم ہوا کہ اس کا زیادہ غلبہ مقصود نہیں وجہ یہ ہے کہ غلبۂ خشیت سے بعض دفعہ جسمانی تکالیف کھڑی ہو جاتی ہیں ۔ جسم حزن وغم سے گھلنے لگتا ہے ۔ نیز بعض دفعہ حدود سے تجاوز ہوجاتا ہے ۔جیسے کسی غلام پر آقا کا خوف بہت غالب ہو تو اس کے سامنے جاتے ہی اس کے ہاتھ پیر پھول جاتے ہین ۔ پھر چاہتا کچھ ہے کرتا کچھ ہے ۔ زبان سے بھی بے تکی باتیں نکلتی ہیں ۔ کہنا کچھ چاہتا ہے اور زبان سے کچھ کا کچھ نکلتا ہے ۔ نیز بعض دفعہ اس غلبۂ خشیت سے مایوسی تک نوبت پہنچ جاتی ہے ۔ اس لیے ایسا غلبہ کمال نہیں ۔ اور اس لیے کاملین پر ایسا غلبہ نہیں ہوتا ۔ چنانچہ انبیاء علیہم السلام غالب علی الکیفیات ہوتے تھے ۔ مغلوب نہ ہوتے تھے ۔ہاں گاہے کاملین پر بھی غلبہ ہوتا ہے مگر وہ زیادہ دیر تک نہیں رہتا ۔ تھوڑی دیر کو ہوتا ہے۔پھر حق تعالیٰ جلدی ہی خود سنبھال لیتے ہیں اور واقعی ناقص کی سنبھال تو کاملین کے ذریعہ سے ہوجاتی ہے کاملین کی سنبھال کون کرے سوا خدا تعالیٰ کے پاس ان کو خود وہی سنبھالتے ہیں   ؎
او بدلہا ہم نماید خویش را

Flag Counter