۔صائب نے خوب کہا ہے ؎
بمنائے بصاحب نظرے گوہر خود را
عیسیٰ نتواں گشت بتصدیق خرے چند
(اپنے گوہر کو کسی صاحب نظر کے سامنے پیش کرو کہ یہ واقعی گوہر ہے یا کانچ کا ٹکڑا ہے کیونکہ چند گدھوں کے کہنے سے تم عیسیٰ نہیں بن سکتے )
فرق اجرت ونفقہ
تنخواہ تعلیم کے متعلق ایک معیار میرے ذہن میں ہے اس کو عرج کرتا ہون ۔ اگر کسی کے ذہن میں کوئی اور معیار ہو تو بہت اچھا وہ اپنے معیار سے اجرت اور نفقہ میں فرق کرلیں ۔ خدا تعالیٰ سے معاملہ ہے اس میں گفتگو اور بحث فضول ہے ۔ میرے نزدیک اجرت اور نفقہ میں فرق کا معیار یہ ہے کہ جو مدرس تنخواہ لے کر پڑھا رہا ہے وہ یہ سوچے کہ اگر کسی جگہ سے زیادہ تنخواہ آجاوے مثلاً یہاں پچیس روپے مل رہے ہیں دوسری جگہ سے پچاس پر ان کو بلایا جائے اور پچیس روپے میں بھی ان کا کام چل رہا ہے ۔ مگر کام چلنے کے یہ معنی نہیں کہ دس چھٹانک گھی روزانہ کھا سکتے ہوں اور دو روپے گز کا کپڑا پہن سکتے ہوں بلکہ مطلب یہ ہے کہ پچیس روپے میں تألّم نہ ہو گو تنعم بھی نہ ہو نیز دوسری جگہ دین کا نفع بھی یہاں زیادہ نہ ہو۔ پھر دیکھنا چاہئے کہ اس حالت میں دوسری جگہ دونی تنخواہ پر جاتا ہے یا نہیں ؟ اگر نہیں جاتا تو واقعی اس کی تنخواہ نفقہ ہے اور اگر چلا گیا تو اس کی تنخواہ اجرت ہے اور یہ کرایہ کا ٹٹو ہے گو گناہ اس میں بھی نہیں کیونکہ متاخرین کا فتوٰی جواز پر ہو چکا ہے مگر اس کو تعلیم وتدریس میں ثواب بھی کچھ نہیں کیونکہ اس کا مقصود محض تنخواہ ہے اس حالت میں یہ تعلیم طاعت نہیں غایت ما فی الباب ایک عمل مباح ہے جس پر اجرت لینا متأخرین کے فتویٰ میں جائز ہے گو فی نفسہٖ تعلیم دین طاعت تھی مگر چونکہ اس کی نیت تعلیم دین کی نہیںبلکہ اجرت ہے اس لیے ’’لکل امریٔ مانوی،، کے قاعدہ سے یہ ثواب کا مستحق نہیں۔ البتہ اگر ایک جگہ تنخواہ اس درجہ قلیل ہو جس میں تنگی اور کلفت سے گزر ہوتا ہو یا گزر تو ہوجاتا ہے مگر وہاںکوئی دوسری قسم کی تکلیف ہے جیسے باہمی رقابت اور تحاسد وتباغض وغیرہ یا اسی کے مثل کوئی اور کلفت ہو اس صورت میں دوسری جگہ چلا جانامذموم نہیں یونکہ اس کا مقصود زیادہ نہیںبلکہ رفع تألم مقصود ہے ۔ یا ایک جگہ تنخواہ بھی قلیل ہے اور دین کا کام بھی اس کے ہاتھ سے یہاں کم ہو رہا ہے اور دوسری جگہ تنخواہ بھی زیادہ ہے اور دین کاکام بھی وہاں اس کے ہاتھ سے زیادہ ہوگا اس صورت میںبھی دوسری جگہ جانے کامضائقہ نہیں جب کہ مقصود یہ ہو کہ میں وہاں جا کر دین کا کام زیادہ کروں گا ۔خدا تعالیٰ سے معاملہ ہے ۔ اس میں اپنی نیت کو دیکھ کر خود فیصلہ کر لینا چاہئے ۔ لوگوں کے سامنے توجیہیں کر کے اگر آپ نے یہ ثابت کردیا کہ ہماری تنخواہ نفقہ ہے اجرت نہیں تو خدا کے یہاںیہ توجیہیں کام نہ دیں