Deobandi Books

کوثر العلوم - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

7 - 31
مخلوقات خود شاہد ہیں تو وہ تعب سے بری ہیں ۔ یہاں تک تو قدرت کا اثبات ہوا ۔ آگے علم کامل ( جس کا اول دعویٰ کیا گیا تھا ) خالقیت سے استدلال فرماتے ہیں ۔
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہ‘
یعنی ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے ( جو غایت درجہ علم وحمت اور قدرت کی دلیل ہے کیونکہ انسان تمام مخوق میں سب سے زیادہ عاقل اور ہو شیار اور ذی علم ہے ۔ تو سمجھ لو کہ اس کا پیدا کرنے والا کیسا ذی علم ہوگا ؟) اور ہم ان باتوں کو بھی جانتے ہیں جو اس کے نفس میں بطور وسوسہ کے گزرتی ہیں ( کیونکہ اس کا منشا حرکت قلب ہے ۔ اور اس حرکت کو بھی ہم ہی پیدا کرتے ہیں جس کی دلیل یہ ہے کہ انسان کے قبضہ میں یہ وساوس نہیں ۔ تو جو وساوس کو بھی جانتا ہے جن کا قیام بھی قلب میں نہیں ہوتا وہ انسان کے ارادہ اور عزم کو کیوں نہ جانے گا جس کو قلب میں قیام ہوتا ہے اور اس سے بڑھ کر اعمال جوارح واقوال لسان کو کیوں نہ جانے گا جوسب کو محسوس ہوتے ہیں گو بوجہ عرض ہونے کے ان کو خود قیام نہیں مگر پھر بھی تبعا للذات ان کا ادراک مخلوق کو بھی ہوتا ہے تو خالق کو کیوں نہ ہوگا ۔ اور جب وہ وساوس قلب اور ارادہ ووعزم اور افعال واقوال کو جانتا ہے تو اجزاء مستحیلہ متفرقہ کو جو جواہر واعیان ہیں کیوں نہ جانے گا ؟ 
یہ تو سباق کی دلالت تھی ۔ اس استدلال پر آگے سیاق تو بہت ہی صریح ہے ۔ فرماتے ہیں
ونَحْنُ أَقْرَبُ اِلَیْہٖ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ
کہ ہم باعتبار علم کے اس کی رگ گردن سے بھی زیادہ قریب ہیں ( رگ سے مراد یہاں پر وہ رگ ہے جس کا اتصال شرط حیات ہے اور حیات کا مدار نفس وروح ہے مقصود یہ ہے کہ ہم انسان کے نفس وروح سے بھی زیادہ اس کے احوال کو جانتے ہیں کیونکہ ہمارا علم قدیم ہے اور حضوری اور انسان کے نفس وروح کا علم حادث ہے خواہ حضوری ہو یا حصولی ۔ اور حصولی تو فی نفسہ بھی ناقص ہے )
علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ یہاں اقربیت سے اقربیت بالعلم مراد ہے ۔پس ’’ونَحْنُ أَقْرَبُ اِلَیْہٖ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ،، یہاں ایسا ہے جیسا’’اَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ ،،کے بعد ’’وَہُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ،،تھا حاصل دونوں کا ایک ہے کہ خالقیت سے عا  لمیت پر استدلال کیا گیا ہے اور علم الٰہی کا کمال ثابت کیاگیا ہے ۔ جس سے امکان معاد کو ثابت کر کے استبعاد کو رفع کرنا مقصود ہے ۔ یہاں اس سے بحث نہیں کہ ان وساوس پر مواخذہ ہوگا یا نہیں بلکہ صرف علم وساوس سے کمال علم کو ثابت کرنا مقصود ہے ۔ خوب سمجھ لو۔پس اس آیت سے وساوس پر مواخذہ کا ثبوت نہیں ہو سکتا ۔ اور جس آیت سے اول نظر میں وساوس پر مواخذہ کا شبہ ہو سکتا تھا حق تعالیٰ نے اس کو بہت صاف اور صریح طور پر دفع فرما دیا ہے اور وہ آیت یہ ہے ۔
وَاِنْ تُبْدُوا مَا فِیْ أَنْفُسِکُمْ أَوْ تُخْفُوْہ‘ یُحَاسِبْکُمْ بِہٖ اﷲُ فَیَغْفِرُ لِمَنْ یَشَائُ وَیُعَذِّبُ مَنْ یَشَائُ وَاﷲُ عَلٰی کُلِّ 
Flag Counter