Deobandi Books

کوثر العلوم - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

4 - 31
لذات کا فرق
اب میں لذت روحانیہ ولذت نفسانیہ میں فرق بتلاتا ہوں تاکہ ذاکرین دھوکا سے بچتے رہیں اور حظوظ نفس کے طالب نہ ہوں ۔ یاد رکھو ذکر وشغل اور نماز وغیر ہ سے جو روح کو کیفیات حاصل ہوتی ہیں وہ نہایت لطیف ہوتی ہیں ۔ کہ لطافت کی وجہ سے ان کو کیفیت کہنا بھی مشکل ہے ۔ وہ غلبہ کے ساتھ وادر نہیں ہوتیں اور ان کی علامت یہ ہے یوماً فیوماً ان مین ترقی ہوتی رہتی ہے ۔اور کیفیات نفسانیہ کا ورود گلبہ سے ہوتا ہے جن میں بعض دفعہ حدود شرعیہ سے بھی انسان نکل جاتا ہے گو یہ اس میں مجبور ومعذور ہو مگر یہ کیفیت مطلوب ومقصود نہیں اور نہ ان کے لیے بقا ہے بلکہ کچھ عرصہ کے بعد یہ غلبہ جاتا رہتا ہے ۔ کیفیت روحانیہ اور لذت روحانیہ کی حقیقت وہ ہے جس کو ایک حدیث میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے 
جعلت قرۃ عینی فی الصلوٰۃ
(کہ میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ۔۱۲) اس کی حقیقت تو وہی جانتا ہے جس کو یہ ٹھندک حاصل ہوتی ہے مگر اس کی علامت یہ ہے کہ نماز سکون واطمینان سے ادا کرے جلدی نہ کرے ۔ اور کوئی چیز اس کو نماز سے مشغول نہ کرے یعنی نماز سے روکنے والی کوئی چیز نہ ہو ۔اور بدون نماز کے قلب کو چین نہ ملے ۔ وقت آتے ہی نماز کے لیے دل بے چین ہوجائے ۔اسی کو خلوص اور احسان کہتے ہیں ۔یہ ہیں کیفیات روحانیہ بخلاف ان کیفیات کے جو سالکین کو وسط میں پیش آتی ہیں جیسے محویّت اور استغراق وغیرہ ۔ان کا بعض اوقات ایسا غلبہ ہوتا ہے کہ حدود سے بھی نکل جاتا ہے سو یہ کیفیات مقصود نہیں ۔اور جس کو خلوص حاصل ہو جو کہ کیفیت روحانیہ ہے گو اس کو کتنے وساوس آتے ہوںاس حالت میں بھی اس کا طالب لذت ومحویّت ہونا ایسا ہے جیسا مولانا فرماتے ہیں   ؎
دست بوسی چوں رسید از دست شاہ
پائے بوسی اندراں دم شد گناہ
(یعنی جس کو بادشاہ نے اپنے ہاتھ چومنے کا موقعہ دے دیاہو اس کا یہ کہنا کہ نہیں حضورم میں تو پیر ہی چوموں گا ،خطا اور گناہ ہے ۱۲) یہ لذت اور محویت تو پائے بوسی کے مثل ہے اور خلوص واحسان دست بوسی کے مثل ہے ۔ پھر افضل کو چھوڑ کر مفضول کا طالب ہونا غلطی ہے یا نہیں ؟
خشوع کی حقیقت
محویت واستغراق کے غیر مقصود ہونے کی دلیل یہ ہے کہ نصوص میں اس کی فضیلت کہیں وارد نہیں ہوئی بلکہ حدیث میں تو خشوع کی حقیقت بتلائی گئی ہے ۔
من توضأ فأحسن الوضوء ثم صلی رکعتین مقبلا علیھما بقلبہ لایحدث فیھما نفسہ غفرلہ ما تقدم من ذنبہ او کما قال۔

Flag Counter