Deobandi Books

کوثر العلوم - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

23 - 31
اسی فرق کو ایک دفعہ یوں بیان فرمایا کہ ہمارے ذہن میں تو اول مقدمات آتے ہیں پھر ان سے نتیجہ خود نکالتے ہیں جو کبھی صحیح ہوتا ہے کبھی غلط ۔ اور حاجی صاحب کے قلب میں اول نتائج صحیح وارد ہوتے ہیں اور مقدمات اس کے تابع ہوتے ہیں ۔ غرض جیسے کثرت مبصرات کا نام ابصار نہیں اسی طرح کثرت معلومات کا نام علم نہیں ۔ بلکہ علم یہ ہے کہ ادراک سلیم اور قوی ہو جس سے نتائج صحیحہ تک جلد وصول ہو جاتا ہو ۔ یہی ہے حقیقت علم جو فقط پڑھنے پڑھانے سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ اس کے اور اسباب ہیں۔
حقیقت تقویٰ
منجملہ ان کے ایک سبب تو دعا ہے جو ’’ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم ‘‘ میں مذکور ہے اور تقویٰ سے یہ مراد نہیں کہ ذکر و شغل اور مراقبات کیا کرو یہ تو زینت تقویٰ ہیں ۔تقویٰ کی حقیقت اور ہے جس کو خدا تعالیٰ ہی سے پوچھ لو ۔ حق تعالیٰ نے اسی مقام پر تقویٰ کی حقیقت بھی بیان فرمائی ہے ۔
الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَمِمَّا رَزَقْنَاھُمْ یُنْفِقُوْنَ۔وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَا أُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ
اس جگہ حق تعالیٰ نے عقائد اور عبادات بدنیہ ومالیہ ( اور معاملات  ۱؎) کے اصول بیان فرما دیئے ہیں پس حاصل یہ ہوا کہ متقی وہ لوگ ہیں جو دین میں کامل ہوں کہ ان کے عقائد بھی صحیح ہوں اور عبادات بدنیہ ومالیہ (اور معاملات ) میں بھی کوتاہی نہ کرتے ہوں اور یہی خلاصہ ہے کمال فی الدین کا ۔ مگر یہ تفسیر اس پر موقوف ہے کہ ’’الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْب ‘‘الخ ، صفت کاشفہ ہو اور اگر صفت کاشفہ نہ بھی ہو جب بھی میرا مدعیٰ حاصل ہے ۔کیونکہ میرا مقصود یہ ہے کہ تقویٰ زیادت علم کا سبب ہے ۔ اب چاہے وہ تقویٰ اس مجموعہ کا نام ہو جو مجموعہ آیات میں مذکور ہے یا اس مجموعہ سے جو حالت بسیط پیدا ہوتی ہے اس کا نام ہو جو ’’للمتقین‘‘ کا مدلول ہے اس میں بحث کرنے کی مجھے ضرورت نہیں ۔ باقی یہ ظاہر ہے کہ تقویٰ کے لیے تمام معاصی سے اجتناب ضروری ہے اور وہ جبھی ہو سکتا ہے کہ مامورات کو بھی بجا لایا جائے ۔ کیونکہ ترک مامور بہ بھی معصیت ہے ۔ اس کا ترک بھی تقویٰ کے لیے ضروری ہے ۔ اب چاہے تقویٰ کو مرکب مانو یا بسیط ، وجودی مانو یا عدمی اس کے لیے عقائد واعمال ومعاملات کی درستی بہر حال ضروری ہے خواہ شرطاً ہو یا شطراً ۔ مگر ایک دوسری آیت سے یہی راجح معلوم ہوتا ہے ’’الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْب ‘‘صفت کاشفہ ہی ہے اور یہ سب اعمال حقیقت تقویٰ میں داخل ہیں ،گو لغۃً تقویٰ کا مفہوم عدمی ہومگر شرعاً مفہوم عدمی نہیں ہے ۔بلکہ شرعاً تقویٰ کی حقیقت کمال فی الدین ہے جس پر وہ دوسری آیت دال ہے ۔ وہ دوسری آیت یہ ہے ۔ 
لَیْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَلٰکِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاﷲِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَلٰئِکَۃِ 
Flag Counter