او بدوزد خرقۂ درویش را
یعنی حق تعالیٰ ہی خود اپنے کو عشاق کے سامنے ظاہر بھی فرماتے ہیں اور خود ہی ان کے نقص کو بھی کمال سے مبدل فرماتے ہیں ۔
غرض صحابہؓ کو غلبۂ خشیت کی وجہ سے یہ خیال پیدا ہوا تھا کہ وساوس پر بھی مواخذہ ہوگا ۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے صحابہ ؓ نے اس شبہ کو عرض کیا ۔ حضور نے بھی آیت کی تفسیر خود نہیںفرمائی کیونکہ آپ پر غلبۂ ادب تھا ادھر وحی قطعی سے رفع اشتباہ کی امید تھی ۔ احکام کے مدارج مختلف ہیں بعض کی تفسیر تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے خود ہی فرمادی ہے اور بعض کے لئے آپ وحی قطعی کے منتظر ہوا کرتے تھے اور ان مدارج کو آپ ہی جانتے تھے غرض آپ نے خود تفسیر نہ کی کہ ’’ما فی انفسکم ‘‘ سے امور اختیاریہ قلبیہ مراد ہیں بلکہ فرمایا
قولوا سمعنا وأطعنا غفرانک ربنا والیک المصیر
یعنی ’’سمعنا واطعنا ‘‘کہو اور جو کچھ بھی حکم نازل ہو اس کو قبول کرو ۔ چنانچہ صحابہ نے ایسا ہی کیا اور عموم پر بھی راضی ہوگئے ۔اس کے بعد رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم اور صحابہ ؓ کی مدح میں آیات نازل ہوئیں ۔
اٰمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ اِلَیْہٖ مِنْ رَبِّہٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ
کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اور صحابہ کا احکام منزلہ من اﷲ پر بڑا کامل ایمان ہے کہ ہر حکم پر دل سے راضی ہو جاتے ہیں اور ’’ سمعنا واطعنا‘‘ کہتے ہیں۔
اس کے بعد آیت سابقہ کی تفسیر فرمائی ۔
لَا یُکَلِّفُ اﷲُ نَفْساً اِلَّا وُسْعَھَا لَھَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَیْھَا مَا اکْتَسَبَتْ
یعنی حق تعالیٰ وسعت سے زیادہ کا مکلف نہیں بناتے اور وساوس غیر احتیاری ہیں تو ان پر مواخذہ نہ ہو گا ۔ اس آیت سے پہلی آیت کی تفسیر ہو گئی کہ اس میں ’’ما فی انفسکم‘‘ سے عزم وارادہ مراد ہے جو ’’ ما کسبت اکتسبت،، میں داخل ہے نہ کہ وسوسہ۔
رہا یہ کہ احادیث میں تو یہ آتا ہے کہ دوسری آیت نے پہلی آیت کو منسوخ کر دیا ہے اور تمہاری تقریر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بیان تبدیل نہیں بلکہ بیان تفسیر ہے ۔ اس کا جواب قاضی ثناء اﷲ صاحب نے خوب دیا ہے کہ سلف کی اصطلاح میں نسخ عام ہے ۔ وہ بیان تفسیر کو بھی نسخ ہی سے تعبیر کر دیتے ہیں ۔ واقعی یہ بہت قیمتی تحقیق ہے اور جو شخص احادیث میں گور کرے گا اس کو اس کی قدر معلوم ہوگی ۔اور تتبع سے اس تحقیق کی صحت معلوم ہوجائے گی ۔
اب بحمد اﷲ سب اشکالات رفع ہو گئے اور اگر کسی کو شبہ ہو کہ ممکن ہے آیت ’’ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہ‘،،نزولاً مؤخر ہو اور ’’لَا یُکَلِّفُ اﷲُ نَفْساً اِلَّا وُسْعَھَا‘‘مقدم ہو تو