ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2012 |
اكستان |
|
کو فروخت کرنے میں کچھ نفع ہوا ہی نہ ہو۔ جبکہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے ذکر کردہ مسئلے میں کپڑے والا جب دس روپے میں کپڑے کو فروخت کرنے کو کہہ رہا ہے تو یہ ضروری نہیں کہ کپڑے کی قیمت ِخرید بھی دس روپے ہو بلکہ غالب یہی ہے کہ دس روپے میں کپڑے والے کا نفع بھی شامل ہوگا۔ اِس صورت میں کپڑا اَگردس روپے میں فروخت کیا گیا تو کپڑے والے کو دو تین روپے کا نفع حاصل ہوا اَور وکیل اُجرت سے یکسر محروم رہا۔ یہ صورت ظاہر ہے کہ مضاربت کی نہیں ہے۔ تنبیہ ٣ : خود مولانا تقی عثمانی مدظلہ کے مطابق بعض اَوقات حسن ِ کار کردگی منفی ہوجاتی ہے لیکن پھر بھی مضارب زائد نفع وصول کرتا ہے حالانکہ یہ قلب موضوع ہے۔ مولانا مدظلہ لکھتے ہیں : ''مدیر صکوک کبھی اَجیر یا وکیل سرمایہ کاری کی حیثیت سے کام کرتا ہے اَور اِس صورت میں وہ دَلال کے مشابہ ہوتا ہے اَور کبھی مضارب یا شریک عامل کی حیثیت سے کام کرتا ہے تو جو اُمور (معاییر شرعیہ میں سے) معیارِ مضاربت میں ذکر ہوئے اُن کے موافق کرتا ہے۔ معین نسبت سے زائد نفع مدیر کی حسن ِکارکردگی کی بنیاد پر اُس کا حق ہو اُس کو ''حافز ''کہا جاتا ہے۔ حافز کا حافز ہونا صرف اُس وقت متصور ہے جب تجارتی اَور صنعتی اَعمال میں کم ترین نفع سے زائد نفع ہو۔ مثال کے طور پر اُن اَعمال میں کم ترین متوقع نفع ٪١٥ ہو تو کہا جا سکتا ہے کہ اِس نسبت سے زائد اَور واقعی نفع حافز کے طور پر مدیرکو دیا جائے کیونکہ زائد نفع کی نسبت معقول طریقے پر مدیر کی حسن ِکارکردگی کی طرف کی جا سکتی ہے۔'' لیکن اُن صکوک میں (جن میں لائی بور کی شرح کے موافق) متعین نسبت متوقع نفع کے ساتھ مربوط نہیں ہے بلکہ یہ تمویل مشقتوں کے ساتھ یا لائی بور کی شرح کے ساتھ مربوط ہے جس کا نرخ ہر روز تو کیا ہر آن بدلتا رہتا ہے اَور اِس نرخ و شرح کا تجارتی یا صنعتی منصوبے کے ساتھ کچھ تعلق نہیں ہوتا اَور