ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2012 |
اكستان |
|
زیادہ کام زبان سے اَنجام پاتے ہیں : اچھا اَب یہ ہے، مثال کے طور پر ایک حاکم ِاَعلیٰ ہے اَب وہ جا جا کے گلی گلی کسی کے چپت تو نہیں مارتا گھر گھر تو نہیں پھرتا بھاگا ہوا، دوڑتا ہوا، پیچھا کرتا ہوا بلکہ زبان سے ایک جملہ کہہ دیتا ہے حکم نافذ کردیتا ہے خیر کے بجائے شر کا خدا کے بجائے اپنے نفس کا۔ یہ کام کیسے کیا ؟ زبان سے کیا زبان سے حکم دیتا ہے، اِملا لکھاتا ہے، بولتا ہے اَور وہ شارٹ ہینڈ والا لکھ کر ٹائپ کر کے لا دیتا ہے زبان ہی سے کیا تھا اپنے ہاتھ سے ہر وقت تھوڑا ہی لکھتا رہتا ہے ہاتھ سے تو دستخط ہی کرنے پڑتے ہیں باقی تو سارے کام جو چل رہے ہیں دُنیا میں وہ اِسی زبان سے ہی چل رہے ہیں وہ بول رہا ہے وہ لکھ رہا ہے ۔اَور بھی طریقے ہوگئے اِس طرح کہ سب ٹیپ کر دیتے ہیں کہ یہ کرنا اَور یہ کرنا ہے اَور دُوسرا ملازم آتا ہے وہ ٹیپ سنتا ہے نقل کرلیتا ہے ۔ تو زبان کا مقدم فرمانا رسول اللہ ۖ کا یہ اِعجاز ہے اَور حدیث کی خوبی ہے فصاحت و بلاغت کی بہت بڑی خوبی ہے ۔تو آقائے نامدار ۖ نے منع فرمایا ہے کہ مسلمان کی شان یہ نہیں ہے کہ اُس کی زبان یا اُس کے ہاتھ سے کسی دُوسرے کو تکلیف پہنچے بلکہ وہ ہے صحیح معنٰی میں مسلمان کہ جس کے بارے میں لوگوں کا یہی گمان ہو کہ نہ اُس کے ہاتھ سے تکلیف پہنچے گی ہمیں نہ اُس کی زبان سے تکلیف پہنچے گی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اَعمالِ صالحہ کی توفیق عطا فرمائے اَور آخرت میں رسول للہ ۖ کا ساتھ نصیب فرمائے، آمین ۔اِختتامی دُعائ................