ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2012 |
اكستان |
|
دُوسری بات یہ ہے کہ زبان سے تکلیف پہنچانے نہ پہنچانے کی طرف توجہ نہیں ہوتی اِنسان کی، کہتا ہے کہ میں نے یہ بات ہی تو کہی ہے ! یعنی کیا تو کچھ نہیں حالانکہ یہ بات نہیں ہے بات پر بھی گرفت ہے کسی پر اِتہام لگا دے اِسلام نے بتایا یہ گرفت کے قابل ہے اِفتراء پردازی بہتان تراشی یہ قابلِ تعزیر ہے اِس پر سزا دی جا سکتی ہے اگر قانون اِسلامی ہو اَور اللہ تعالیٰ لائے اُسے قدرت ہے کہ وہ یہاں اِسلامی قانون لائے ۔ یہاں سارے اِسلام کے دُشمن ہیں : اگرچہ سارے کے سارے چوٹی سے اَیڑی تک سر سے پاؤں تک اُوپر سے نیچے تک مسلمان ہی کہلاتے ہیں مگر اِسلامی قانون کے دُشمن ہیں اِن کے دِل میں اِسلامی قانون سے نفرت اُس کی حقارت اُس کا ڈر بیٹھا ہواہے باقی اللہ کو قدرت ہے کہ وہ لائیں وہ لا سکتے ہیں ۔ اَگر اِسلامی قانون آجائے تو پھر گالی گلوچ منع ہے یہ جو گلیوں میں ایسے گالی دے لیتے ہیں جو چاہے جسے چاہے کھڑا ہو کر کہہ لے کچھ بھی ،یہ نہیں ہوگا بلکہ باغیرت معاشرہ ہوگا ہر فرد غیرت مند ہوگا ہر آدمی کی عزت بھی محفوظ ہوگی یہ نہیں ہے کہ کوئی بھی کھڑا ہوا اَور دُوسرے کو اُس نے بے عزت کردیا بے وجہ ایسی صورت اِسلامی حکومت میں نہیں ہوا کرتی بلکہ ساری کی ساری رعایا غیرت مند ہوتی تھی۔ یہاں کے لوگ باغیرت نہیں ،اپنا حکمران اَنگریز کو تسلیم کرلیا : اَنگریز نے یہاں حکومت کی ہے تویہاں حکمران اَنگریز رہے ہیں وائسرائے رہتا تھا گورنر رہتا تھا آئی جی رہتا تھا سپرنٹینڈنٹ پولیس رہتا تھا یہ سب کے سب انگریز تھے ڈی سی انگریز ،یہاں کے لوگ باغیرت نہیں تھے برداشت کرلیا ملے جلے بھی تھے خالی مسلمان ہی نہیں تھے بلکہ اَکثریت تھی ہندوؤں کی، ہندو تھے محکوم اُنہوں نے گوارہ کر لیا مسلمان تو لڑے بھی ہیں جہاد بھی کیا ہے ١٨٥٧ء میں بہت شہید ہوئے ہیں ہندوؤں نے بھی ساتھ دیا ہے ٹھیک ہے مگر مسلمان ہی زیادہ لڑتے رہے ہیں اَور ہندوؤں کو ساتھ مِلا کر اَنگریز کو یہاں سے نکالا اَوریہ خطے آزاد ہو گئے ۔