ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2012 |
اكستان |
|
لیے یہ زائد نفع مدیر کو ملے گا) اَور جب لائی بور کی نسبت سے واقعی نفع کم ہو تو اِس نسبت کو پورا کرنے کے لیے مدیر حاملین ِ صکوک میں قرض کے طور پر رقم تقسیم کرتا ہے اَور اِس قرض کو آیندہ مدتوں میں ہونے والے منافع میں سے منہا کر لیتا ہے یا صکوک کی مدت ختم ہونے پر اُن کی واپس خریدکی قیمت میں سے قرض کی مقدار کو وصول کر لیتا ہے۔ (٢) رأس المال کی واپسی کی ضمانت : آج کل جتنے بھی صکوک ہیں وہ حاملین ِ صکوک کو اُن کے سرمایہ کی واپسی کی ضمانت دیتے ہیں بالکل اِسی طرح جیسے سودی سندات ضمانت دیتی ہیں۔ اِس کی صورت یا تو یہ ہے کہ صکوک کو جاری کرنے والا یا مدیر صکوک اِس بات کا لازمی وعدہ کرتا ہے کہ وہ اَصل جائیداد کو (جس کی صکوک نمائندگی کرتے ہیں ) اُس کی بازاری یا حقیقی قیمت سے قطع نظر کرتے ہوئے اُس کی قیمت اِسمیہ (Face-Value) پر خرید لے گا۔ اِس طریقے سے صکوک میں سودی سندات کے خصائص آجاتے ہیں اَور حاملین ِ صکوک کو ایک طرف لائی بور کی بنیاد پر سرمایہ کی معین نسبت سے نفع ملتا ہے اَور دُوسری طرف حاملین ِ صکوک کو ضمانت دی جاتی ہے کہ اِنتہائے مدت پر اُن کا پورا سرمایہ اُن کو واپس مل جائے گا۔ آگے ہم صکوک کی اِس صفت پر بحث کرتے ہیں ایک تو فقہی اِعتبار سے اَور دُوسرے اِقتصادِ اِسلامی کے اِنتظام کے اِعتبار سے۔ فقہی اِعتبار سے اِس بحث کے تین مسئلے اَور اُن پر تبصرہ : مولانا تقی عثمانی مدظلہ لکھتے ہیں : (١) یہ شرط کہ لائی بور کی نسبت سے زائد نفع مدیر کا ہوگا کیونکہ یہ مدیر کی اچھی کارگردگی کی محرک ہے ۔ (٢) مدیر کا یہ اِلتزام کرنا کہ اگر کسی مدت میں واقعی نفع لائی بور کی شرح سے کم ہوگا تو مدیر حاملین ِ صکوک کو نفع کی شکل میں قرض دے گا جو یا تو آئندہ مدتوں میں ہونے