ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2012 |
اكستان |
|
قسط : ١٠ سیرت خلفائے راشدین ( حضرت مولانا عبدالشکور صاحب فاروقی لکھنوی ) خلیفہ رسول اللہ حضرت اَبوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ قتالِ مرتدین اَور تجہیز جیش اُسامہ : ر سولِ خدا ۖ کی وفات کی خبر سن کر عرب کے بعض قبائل مرتد ہو گئے اَور طرح طرح کی بغاوتیں رُونما ہوئیں، بعض مدعیانِ نبوت اُٹھ کھڑے ہوئے جن میں ایک مسیلمہ کذاب بھی تھا جس نے رسولِ خدا ۖ کے اَخیر وقت میں سر اُٹھایا تھا اَور ایک خط بھی بھیجا تھا، اَور اُن ہی مدعیانِ نبوت میں اَسودِ عنسی بھی تھا اَور سجاح نامی ایک عورت بھی تھی۔ حضرت اَبو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اُن سب مرتدوں کو اَور نبوت کے جھوٹے مدعیوں کے قتال کے لیے حکم قطعی نافذ کردیا۔ اُدھر ایک بات یہ بھی دَرپیش تھی کہ رسولِ خدا ۖ اَپنی آخری وصیت میں حکم دے گئے تھے کہ اُسامہ ١ کا لشکر ملک ِ شام ١ رسولِ خدا ۖ نے جب ٦ ھ میں شاہانِ رُوئے زمین کو دعوت ِ اِسلام کے فرامین بھیجے تو ایک فرمان شرجیل کے نام بھی تھا جو بما تحتی قیصر رُوم وبصریٰ وغیرہ سرحدی مقامات کا فرمانروا تھا۔ اُس نے اَپنے غرور کی بد مستی میں فرمانِ عالیشان کا جواب دینے کے بجائے آپ ۖ کے قاصد کو قتل کر دیا، اُس کے اِنتقام میں جمادی الاولیٰ ٨ھ میں ایک فوج تین ہزار کی بھیجی۔ سردار ِ لشکر زید بن حارث رضی اللہ عنہ کو بنایا جو آپ ۖ کے آزاد کیے ہوئے غلام تھے اَور فرمایا زید شہید ہوجائیں تو جعفر طیار کو (حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حقیقی بڑے بھائی ) وہ بھی شہید ہوجائیں تو عبداللہ بن رواحہ کو سرداری ملے، وہ بھی شہید ہوجائیں تو پھر اپنے اِنتخاب سے سردار بنالینا چنانچہ یہ تینوں شہید ہو گئے اَور صحابہ کرام نے اپنے اِنتخاب سے حضرت خالد کو سپہ سالار بنایا، دُشمن کی فوج ایک لاکھ سے زائد تھی، خود قیصرو کسریٰ بھی مدد کے لیے ایک بڑی فوج لیے ہوئے قریب کے ایک مقام پر پڑائو ڈالے ہوئے تھے ۔(باقی حاشیہ اَگلے صفحہ پر)